صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ -- کتاب: وضو کے بیان میں
22. بَابُ الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً:
باب: وضو میں ہر عضو کو ایک ایک دفعہ دھونا بھی ثابت ہے۔
حدیث نمبر: 157
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً مَرَّةً".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے سفیان نے زید بن اسلم کے واسطے سے بیان کیا، وہ عطاء بن یسار سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 157  
´وضو میں ہر عضو کو ایک ایک دفعہ دھونا بھی ثابت ہے`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً مَرَّةً . . . .»
. . . وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً:: 157]

تشریح:
معلوم ہوا کہ اگر ایک ایک بار اعضاءکو دھو لیا جائے تو وضو ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ ثواب نہیں ملتا جو تین تین دفعہ دھونے سے ملتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 157   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 117  
´چہرے کے ساتھ کانوں کو بھی اندر کی جانب سے صاف کرنا`
«. . . قَالَ: دَخَلَ عَلَيَّ عَلِيٌّ يَعْنِي ابْنَ أَبِي طَالِبٍ وَقَدْ أَهْرَاقَ الْمَاءَ، فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَأَتَيْنَاهُ بِتَوْرٍ فِيهِ مَاءٌ حَتَّى وَضَعْنَاهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، أَلَا أُرِيكَ كَيْفَ كَانَ يَتَوَضَّأُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قُلْتُ: بَلَى . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ استنجاء کر کے میرے پاس آئے، اور وضو کے لیے پانی مانگا، ہم ایک پیالہ لے کر ان کے پاس آئے جس میں پانی تھا یہاں تک کہ ہم نے انہیں ان کے سامنے رکھا تو انہوں نے مجھ سے کہا: اے ابن عباس! کیا میں تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کرتے تھے؟ میں نے کہا: ہاں، ضرور دکھائیے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 117]
فوائد و مسائل:
➊ یہ وضو ہے جو ہمارے ائمہ اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے اور خود اس کے قائل و فاعل تھے اور ہم بھی اسی پر کاربند ہیں۔ «الحمد لله على ذلك»
➋ اس روایت میں تین بار چہرہ دھو کر مزید ایک بار پانی بہانے کا ذکر آیا ہے۔ یہ بیان جواز کے لیے ہے جو شاید کبھی کبھی کیا گیا۔ راجح اور افضل صرف تین بار ہی ہے۔ نیز چہرے کے ساتھ کانوں کو بھی اندر کی جانب سے صاف کیا جا سکتا ہے۔
➌ جب جوتا کھلی چپل کی مانند ہو تو اسے اتارے بغیر پانی میں ویسے ہی مل لیا جائے تو پاؤں دھل جاتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 117   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 137  
´پیروں پر پانی چھڑک کر ان پر ہاتھوں سے مسح`
«. . . ابْنُ عَبَّاسٍ: أَتُحِبُّونَ أَنْ أُرِيَكُمْ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ؟" فَدَعَا بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ، فَاغْتَرَفَ غَرْفَةً بِيَدِهِ الْيُمْنَى فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ أَخَذَ أُخْرَى فَجَمَعَ بِهَا يَدَيْهِ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ، ثُمَّ أَخَذَ أُخْرَى فَغَسَلَ بِهَا يَدَهُ الْيُمْنَى ثُمَّ أَخَذَ أُخْرَى فَغَسَلَ بِهَا يَدَهُ الْيُسْرَى، ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنَ الْمَاءِ ثُمَّ نَفَضَ يَدَهُ ثُمَّ مَسَحَ بِهَا رَأْسَهُ وَأُذُنَيْهِ، ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً أُخْرَى مِنَ الْمَاءِ فَرَشَّ عَلَى رِجْلِهِ الْيُمْنَى وَفِيهَا النَّعْلُ ثُمَّ مَسَحَهَا بِيَدَيْهِ يَدٍ فَوْقَ الْقَدَمِ وَيَدٍ تَحْتَ النَّعْلِ ثُمَّ صَنَعَ بِالْيُسْرَى مِثْلَ ذَلِكَ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہم سے کہا: کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں تمہیں دکھاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کرتے تھے؟ پھر انہوں نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی تھا اور داہنے ہاتھ سے ایک چلو پانی لے کر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر ایک اور چلو پانی لے کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ دھویا، پھر ایک چلو اور پانی لیا اس سے اپنا داہنا ہاتھ دھویا، پھر ایک چلو اور لے کر بایاں ہاتھ دھویا، پھر تھوڑا سا پانی لے کر اپنا ہاتھ جھاڑا، اور اس سے اپنے سر اور دونوں کانوں کا مسح کیا، پھر ایک مٹھی پانی لے کر داہنے پاؤں پر ڈالا جس میں جوتا پہنے ہوئے تھے، پھر اس پر اپنے دونوں ہاتھوں کو اس طرح سے پھیرا کہ ایک ہاتھ پاؤں کے اوپر اور ایک ہاتھ نعل (جوتا) کے نیچے تھا، پھر بائیں پاؤں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 137]
فوائد و مسائل:
اس روایت میں پیروں پر پانی چھڑک کر ان پر ہاتھوں سے مسح کرنے کا ذکر ہے، تو یہ دوسری روایات کے مخالف نہیں، کیونکہ پھر آپ نے ہاتھوں سے انہیں اس طرح ملا، جیسے دھونے میں کیا جاتا ہے، اس طرح اس میں «غَسل» (دھونے) کا مفہوم آ جاتا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے، اس میں ہے آپ نے ایک چلو پانی لیا اور اسے دائیں پاؤں پر چھڑکا، یہاں تک کہ اسے دھویا۔ [صحيح بخاري، حديث: 140، عون المعبود]
البتہ اس میں آخری حصہ، جس میں پاؤں کے اوپر نیچے مسح کرنے کا ذکر ہے، شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک شاذ ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 137   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 101  
´کان کے مسح کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے وضو کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر ایک ہی چلو سے کلی کی، اور ناک میں پانی ڈالا ۱؎، اور اپنا چہرہ دھویا، اور اپنے دونوں ہاتھ ایک ایک بار دھوئے، اور اپنے سر اور اپنے دونوں کانوں کا ایک بار مسح کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 101]
101۔ اردو حاشیہ:
«مِنْ غَرْفَةٍ وَاحِدَةٍ» ایک چلو سے۔ اس سے وصل ثابت ہوتا ہے جو کہ مسنون ہے، اگرچہ احناف اسے سنت نہیں سمجھتے۔ جس کی تفصیل حدیث: 93 کے فوائد میں گزر چکی ہے۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا جائے تو بھی وضو مکمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 101   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث403  
´ایک چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی چلو سے کلی کی، اور ناک میں پانی چڑھایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 403]
اردو حاشہ:
(1)
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ہاتھ میں پانی لیکر کچھ پانی سے کلی کرلی جائےاور باقی پانی ناک میں ڈال کر ناک صاف کی جائے۔
ناک کے لیے الگ سے پانی نہ لیا جائے۔
امام ترمذی ؒ نے فرمایا ہے کہ بعض علماء نے اس طریقے کو بہتر قرار دیا ہے بعض نے دوسرے کو۔
امام شافعی ؒ نے فرمایا اگر دونوں کام ایک ہی چلو سے کرلے تو جائز ہے۔
لیکن ہمیں الگ الگ پانی لینا زیادہ پسند ہے۔ (جامع الترمذي، الطهارة، باب المضمضة والاستنشاق من كف واحد، حديث: 28)
حديث کی رو سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کی جائےاور ناک میں پانی ڈالا جائے کیونکہ ایک چلو سے کلی اور ناک صاف کرنے والی روایات سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور مستند ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 403   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 36  
´دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کے مسح کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے سر کا اور اپنے دونوں کانوں کے بالائی اور اندرونی حصوں کا مسح کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 36]
اردو حاشہ:
1؎:
اس باب اور حدیث سے مؤلف کا مقصد اس طرف اشارہ کرنا ہے کہ کانوں کے اندرونی حصے کو چہرہ کے ساتھ دھونے اور بیرونی حصے کو سر کے ساتھ مسح کرنے کے قائلین کا رد کریں،
اس قول کے قائلین کی دلیل والی حدیث ضعیف ہے،
اور نص کے مقابلہ میں قیاس جائز نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 36   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:157  
157. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے وضو میں اعضاء کو ایک ایک بار دھویا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:157]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کے آغاز میں اللہ کا نام لینے کے لیے بطور ثبوت جماع کے وقت دعا پڑھنے کا ذکر کیا تھا۔
چونکہ جماع کے بعد استنجاء کیا جاتا ہے، اس لیے استطراد کے طور پر قضائے حاجت کے آداب شروع کر دیے۔
ان سے فراغت کے بعد دوبارہ اصل مقصود یعنی آداب وضو کی طرف رجوع فرمایا:
وضو کے متعلق یہ مضمون کہ اعضائے وضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا جائے آغاز میں سند کے بغیر بیان ہوچکا ہے یعنی ایک ایک مرتبہ اعضاء دھونے سے فرض کی ادائیگی ہو جاتی ہے چونکہ ایک مسلمان کے لیے ہر وقت باوضو رہنا مطلوب اور پسندیدہ عمل ہے اس لیے استنجا کرنے کے بعد وضو کرتے وقت اعضائے وضو کے ایک ایک مرتبہ دھونے پر اکتفا کیا گیا ہے۔
عام حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے وضو کرتے وقت اعضاء کو تین تین مرتبہ دھوتے تھے۔
ایک ایک مرتبہ دھونے کی تین صورتیں ممکن ہیں۔

بیان جواز کے لیے۔

پانی کم ہونے کے پیش نظر۔

ہنگامی حالات کے وقت، بہرحال یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نماز کی ادائیگی کے لیے وضو کرتے وقت اعضائے وضو کو کم ازکم ایک ایک مرتبہ دھونا ضروری ہے نیز یہ روایت مجمل ہے۔
تفصیلی روایت پہلے بیان ہو چکی ہے۔
(صحیح البخاري، الطهارة، حدیث: 140)
اس وضاحت کے بعد امام تدبرکی بھی سنیے جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
گویا امام صاحب کی مخالفت پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
قضائے حاجت کے مضمون کو طہارت اور وضو کے تحت بیان مناسب نہیں تھا۔
امام صاحب کو چاہیے تھا کہ اس مقصد کے لیے الگ عنوان قائم کرتے۔
(تدبر حدیث: 259/1)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام تدبرکے نزدیک آداب قضائے حاجت کا طہارت اور وضو سے کوئی تعلق نہیں۔
دراصل مزعومہ تدبر کی آڑ میں حدیث اور اصحاب الحدیث کا استخفاف مقصود ہے جو ان حضرات کی تالیفات میں بکثرت موجود ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 157