سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
58. باب التَّكْبِيرِ عَلَى الْجَنَازَةِ
باب: جنازے کی تکبیرات کا بیان۔
حدیث نمبر: 3196
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاق، عَنِ الشَّعْبِيِّ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" مَرَّ بِقَبْرٍ رَطْبٍ، فَصَفُّوا عَلَيْهِ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا"، فَقُلْتُ لِلشَّعْبِيِّ: مَنْ حَدَّثَكَ؟ قَالَ: الثِّقَةُ مَنْ شَهِدَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ.
شعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک نئی قبر پر سے ہوا، تو لوگوں نے اس پر صف بندی کی آپ نے (نماز پڑھائی اور) چار تکبیریں کہیں۔ ابواسحاق کہتے ہیں: میں نے شعبی سے پوچھا: آپ سے یہ حدیث کس نے بیان کی؟ انہوں نے کہا: ایک معتبر آدمی نے جو اس وقت موجود تھے، یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 161 (857)، والجنائز 5 (1247)، 54 (1319)، 55 (1322)، 59 (1326)، 66 (1336)، 69 (1340)، صحیح مسلم/الجنائز 23 (954)، سنن الترمذی/الجنائز 47 (1037)، سنن النسائی/الجنائز 94 (2025)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 32 (1530)، (تحفة الأشراف: 5766)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/224، 283، 338) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1037  
´قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
شعبی کا بیان ہے کہ مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے ایک قبر الگ تھلگ دیکھی تو اپنے پیچھے صحابہ کی صف بندی کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ شعبی سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ خبر کس نے دی۔ تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہما نے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1037]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ لوگ باب کی حدیث کاجواب یہ دیتے ہیں کہ یہ نبی اکرمﷺ کے لیے خاص تھا کیونکہ مسلم کی روایت میں ہے (إن هذه القبور مملوؤة مظالم على أهلها وأن الله ينورها لهم بصلاة عليهم) ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی صلاۃ قبرکو منورکرنے کے لیے تھی اوریہ دوسروں کی صلاۃ میں نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھنا مشروع نہیں جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ جن لوگوں نے آپ کے ساتھ قبرپر صلاۃِجنازہ پڑھی آپ نے انھیں منع نہیں کیا ہے کیونکہ یہ جائزہے اور اگریہ آپ ہی کے لیے خاص ہوتادوسروں کے لیے جائزنہ ہوتا توآپ انھیں ضرور منع فرما دیتے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1037