سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
58. باب التَّكْبِيرِ عَلَى الْجَنَازَةِ
باب: جنازے کی تکبیرات کا بیان۔
حدیث نمبر: 3197
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ:" كَانَ زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَأَنَا لِحَدِيثِ ابْنِ الْمُثَنَّى أَتْقَنُ.
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید یعنی ابن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک بار ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا (آپ ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ کیسے کہیں؟) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا (بھی) کہتے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے ابن مثنیٰ کی حدیث زیادہ یاد ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجنائز 23 (961)، سنن الترمذی/الجنائز 37 (1023)، سنن النسائی/الجنائز 76 (1984)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 25 (1505)، (تحفة الأشراف: 3671)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/368،370، 371، 372) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جب پانچ تکبیریں کہی جائیں تو پہلی تکبیر کے بعد دعاء ثنا پڑھے، دوسری کے بعد سورہ فاتحہ، تیسری کے بعد درود، چوتھی کے بعد دعاء اور پانچویں کے بعد سلام پھیرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 453  
´نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبریں`
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی لیلٰی سے روایت ہے کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پرچار تکبیریں کہتے تھے مگر (خلاف معمول) ایک مرتبہ انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو میں نے ان سے دریافت کیا انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی پانچ تکبیریں کہتے تھے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 453]
فوائد و مسائل:
(1) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز جنازہ میں چار سے زیادہ تکبریں بھی جائز ہیں۔
➋ تکبیرات جنازہ چار سے لے کر نو تک مروی ہیں جن کی تفصیل شیخ البانی رحمہ الله نے احکام الجنائز میں بیان کی ہے۔ احادیث اور آثار بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ تکبیرات جنازہ چار سے لے کر نو تک نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہیں، ان میں سے جس پر بھی عمل کر لیا جائے جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ تنوع اختیار کیا جائے، یعنی کبھی چار، کبھی پانچ، کبھی چھ۔۔۔ تکبیرات کے ساتھ جنازہ پڑھ لیا جائے، جیسے دعائے استفتاح وغیرہ کی بابت ہے کہ ان میں سے کوئی بھی پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔
مزید لکھتے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک پر التزام کرنا ہو تو پھر چار تکبیرات پر کرنا چاہیے کیونکہ اس کی بابت احادیث کثرت سے مروی ہیں۔ رہی یہ بات کی صرف چار تکبیرات پر سلف اور خلف کا اجماع ہے، درست نہیں لہٰذا راجح یہی ہے کہ نماز جنازہ میں چار سے لے کر نو تک تکبیریں کہی جا سکتی ہیں، البتہ اگر ہمیشہ ایک ہی طریقے پر نماز جنازہ پڑھنی ہو تو پھر چار تکبیرات کو کثرت احادیث کی بنا پر ترجیح دینی چاہیے۔ «والله اعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [احكام الجنائز وبدعا للالباني، ص: 146، 141]
رہا تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کرنا تو اس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث صحیح سند سے مروی نہیں جیسا کہ امام شوکانی، امام ابن حزم، سید سابق اور محقق عظیم شیخ البانی رحمہ الله کا موقف ہے،
اس کی بابت لکھتے ہیں کہ صرف پہلی تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا جائے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی ثابت ہے۔ دیکھیے: [احكام الجنائز وبدعا للالباني، ص: 147 طبع مكتبة المعارف، الرياض، والمحلي لابن حزم: 128/5 وفقه السنة: 266/1]
البتہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق مروی ہے کہ وہ نماز جنازہ کی ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، تعليقاً، الجنائز، باب سنة، الصلاة على الجنازة، قبل الحديث: 1322، والسنن الكبري للبيهقي: 44/4]
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی بابت معروف ہے کہ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے عمل کیا کرتے تھے، لہٰذا ان کا تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کرتے دیکھا ہو گا۔ ان سے یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی ایسا عمل کریں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہو۔ بنابریں تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرنے کو بدعت نہیں کہنا چاہیے کیونکہ صحابی کے عمل اور قول کو بدعت نہیں کہا جا سکتا، نیز اس کی بابت بحث و تکرار بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ جمہور علماء نے اسے جائز قرار دیا ہے، لہٰذا ہمیں راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی تکبیرات جنازہ کے ساتھ رفع الیدین کرتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے اور اگر کوئی نہیں کرتا تو اس کا جواز بھی ہے، اس میں بحث و تکرار اور تشدد مناسب نہیں ہے۔ «والله اعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [فتاويٰ الدين الخالص: 172، 170/7]
راوی حدیث:
[ ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ رحمہ اللہ ] انصاری مدنی ہیں۔
پھر کوفہ میں منتقل ہونے کی وجہ سے کوفی کہلائے۔
کبار تابعین میں سے تھے۔
صحابہ رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت سے ان کا سماع ثابت ہے۔
ان کی کنیت ابوعیسیٰ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے اختتام میں ابھی چھ سال باقی تھے جب ان کی پیدائش ہوئی۔ چھیاسی ہجری میں معرکہ جماجم میں فوت ہوئے اور ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے نہر بصرہ میں ڈوب کر شہادت پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 453   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1505  
´نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں کہنے کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں میں چار بار اللہ اکبر کہا کرتے تھے، ایک بار انہوں نے ایک جنازہ میں پانچ تکبیرات کہیں، میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ تکبیرات ۱؎ (بھی) کہتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1505]
اردو حاشہ:
فائده:
اس سے معلوم ہوا کہ پانچ تکبیریں بھی جائز ہیں۔
اس صورت میں میت کے لئے کچھ دعایئں تیسری تکبیر کے بعد پڑھ لی جایئں کچھ چوتھی تکبیر کے بعد اس کے بعد پانچویں تکبیر کہہ کرسلام پھیر دیا جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1505   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1023  
´نماز جنازہ کی تکبیرات کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید بن ارقم ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہتے تھے۔ انہوں نے ایک جنازے پر پانچ تکبیریں کہیں ہم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا بھی کہتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1023]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اس روایت سے معلوم ہواکہ صلاۃِجنازہ میں چارسے زیادہ تکبیریں بھی جائزہیں،
نبی کریم ﷺسے اورصحابہ کرام سے پانچ،
چھ،
سات اورآٹھ تکبیریں بھی منقول ہیں،
لیکن اکثرروایات میں چارتکبیروں ہی کاذکرہے،
بیہقی وغیرہ میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کے باہمی مشورے سے چارتکبیروں کاحکم صادرفرمایا،
بعض نے اسے اجماع قراردیا ہے،
لیکن یہ صحیح نہیں،
علی رضی اللہ عنہ وغیرہ سے چارسے زائدتکبیریں بھی ثابت ہیں،
چوتھی تکبیرکے بعد کی تکبیرات میں میت کے لیے دعاہوتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1023   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3197  
´جنازے کی تکبیرات کا بیان۔`
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید یعنی ابن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک بار ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا (آپ ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ کیسے کہیں؟) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا (بھی) کہتے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے ابن مثنیٰ کی حدیث زیادہ یاد ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3197]
فوائد ومسائل:
تکبیرات جنازہ تین سے لے کر نو تک مروی ہیں۔
مگر چار پر سلف اور خلف کااجماع ہے۔
پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ دوسری کے بعد درودابراہیمی ؑ تیسری کے بعد میت کے لئے دعا اور چوتھی کے بعد سلام ہوتا ہے۔
(عون المعبود)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3197