سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
63. باب فِي جَمْعِ الْمَوْتَى فِي قَبْرٍ وَالْقَبْرُ يُعَلَّمُ
باب: ایک قبر میں کئی میتوں کو اکٹھا کرنے اور قبر پر نشان رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3206
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سَالِمٍ. ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْفَضْلِ السِّجِسْتَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل، بِمَعْنَاهُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ الْمَدَنِيِّ، عَنِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، أُخْرِجَ بِجَنَازَتِهِ فَدُفِنَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا أَنْ يَأْتِيَهُ بِحَجَرٍ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ حَمْلَهُ، فَقَامَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ، قَالَ كَثِيرٌ: قَالَ الْمُطَّلِبُ: قَالَ الَّذِي يُخْبِرُنِي ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ ذِرَاعَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَسَرَ عَنْهُمَا، ثُمَّ حَمَلَهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَأْسِهِ، وَقَالَ: أَتَعَلَّمُ بِهَا قَبْرَ أَخِي، وَأَدْفِنُ إِلَيْهِ مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِي".
مطلب کہتے ہیں جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ لے جایا گیا اور وہ دفن کئے گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا (تاکہ اسے علامت کے طور پر رکھا جائے) وہ اٹھا نہ سکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف اٹھ کر گئے اور اپنی دونوں آستینیں چڑھائیں۔ کثیر (راوی) کہتے ہیں: مطلب نے کہا: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث مجھ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کی سفیدی جس وقت کہ آپ نے اسے کھولا دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اٹھا کر ان کے سر کے قریب رکھا اور فرمایا: میں اسے اپنے بھائی کی قبر کی پہچان کے لیے لگا رہا ہوں، میرے خاندان کا جو مرے گا میں اسے انہیں کے آس پاس میں دفن کروں گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15672) (حسن)» ‏‏‏‏ (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ صحیح بھی حسن ہے، ورنہ کثیر بن زید سے روایت میں غلطیاں ہو جایا کرتی تھی)۔

وضاحت: ۱؎: عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بھائی فرمایا کہ وہ آپ کے رضاعی بھائی تھے، انہوں نے ساری عمر کبھی شراب نہیں پی، اور مہاجرین میں سب سے پہلے مدینہ میں انتقال ہوا اور بقیع میں تدفین ہوئی، اس سے معلوم ہوا کہ قبر کی شناخت کے لئے قبر کے پاس کوئی پتھر رکھنا یا کوئی تختی نصب کرنا درست ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3206  
´ایک قبر میں کئی میتوں کو اکٹھا کرنے اور قبر پر نشان رکھنے کا بیان۔`
مطلب کہتے ہیں جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ لے جایا گیا اور وہ دفن کئے گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا (تاکہ اسے علامت کے طور پر رکھا جائے) وہ اٹھا نہ سکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف اٹھ کر گئے اور اپنی دونوں آستینیں چڑھائیں۔ کثیر (راوی) کہتے ہیں: مطلب نے کہا: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث مجھ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کی سفیدی جس وقت کہ آپ نے اسے کھولا دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3206]
فوائد ومسائل:

قبر پرکوئی مناسب علامت رکھ دیناجائزہے۔
مگر کتبہ لگانا اور جھنڈا وغیرہ گاڑنا جائزنہیں۔

انسان کو چاہیے کہ صالح ہمسائے کا انتخاب کرے حتی کہ قبر میں بھی کسی صالح بندے کی ہمسائیگی اختیار کرنا مستحب ہے۔

حدیث کے الفاظ ادفن الیہ کا ایک ترجمہ وہ ہے جو یہاں کیا گیا۔
جس سے نیک لوگوں کے قریب دفن ہونے کاستحباب ثابت ہوتا ہے۔
اور دوسرے معنی کئے گئے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ہی اپنے دوسرے اہل خانہ کو دفن کروں اس سے ایک ہی قبر میں متعدد افراد کو دفن کرنے کا اثابت ہوتا ہے۔
غالبا امام ابو دائود کے ذہن میں یہی مفہوم ہے اور اسی مفہوم کے مطابق انھوں نے باب باندھا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3206