سنن ابي داود
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
74. باب كَرَاهِيَةِ الذَّبْحِ عِنْدَ الْقَبْرِ
باب: قبر کے پاس ذبح کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3222
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا عَقْرَ فِي الْإِسْلَامِ"، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: كَانُوا يَعْقِرُونَ عِنْدَ الْقَبْرِ بَقَرَةً أَوْ شَاةً.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں «عقر» نہیں ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: لوگ زمانہ جاہلیت میں قبر کے پاس جا کر گائے بکری وغیرہ ذبح کیا کرتے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 475)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/197) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: قبرکے پاس گائے بکری وغیرہ ذبح کرنا یہی «عقر» ہے، اسلام میں اس سے ممانعت ہو گئی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3222  
´قبر کے پاس ذبح کرنا منع ہے۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام میں «عقر» نہیں ہے۔‏‏‏‏ عبدالرزاق کہتے ہیں: لوگ زمانہ جاہلیت میں قبر کے پاس جا کر گائے بکری وغیرہ ذبح کیا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3222]
فوائد ومسائل:
یہ ایک جاہلی رسم تھی کہ گویا صاحب قبر اپنی زندگی میں بڑا سخی تھا۔
تو اس کے اقارب موت کے بعد اس کی قبر کے پاس جانور ذبح کرکے چھوڑ دیتے تھے کہ جانور کھا جایئں اسلام نے اس کام سے روک دیاہے۔
اور اب کسی بھی نیت سے قبر جانور ذبح کرنا۔
چڑھاوا چڑھانا یا دیگیں پکا کر تقسیم کرنا حرام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3222