سنن ابي داود
كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل
2. باب فِيمَنْ حَلَفَ يَمِينًا لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالاً لأَحَدٍ
باب: جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کر لینا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3245
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" جَاءَ رَجُلٌ مِنْ حَضْرَمَوْتَ، وَرَجُلٌ مِنْ كِنْدَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا غَلَبَنِي عَلَى أَرْضٍ كَانَتْ لِأَبِي، فَقَالَ الْكِنْدِيُّ: هِيَ أَرْضِي فِي يَدِي أَزْرَعُهَا، لَيْسَ لَهُ فِيهَا حَقٌّ، قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَضْرَمِيِّ: أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَكَ يَمِينُهُ؟، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ فَاجِرٌ لَا يُبَالِي مَا حَلَفَ عَلَيْهِ، لَيْسَ يَتَوَرَّعُ مِنْ شَيْءٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ لَكَ مِنْهُ إِلَّا ذَاكَ، فَانْطَلَقَ لِيَحْلِفَ لَهُ، فَلَمَّا أَدْبَرَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا لَئِنْ حَلَفَ عَلَى مَالٍ لِيَأْكُلَهُ ظَالِمًا، لَيَلْقَيَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ عَنْهُ مُعْرِضٌ".
وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضر موت کا ایک شخص اور کندہ کا ایک شخص دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، حضرمی نے کہا: اللہ کے رسول! اس شخص نے میرے والد کی ایک زمین مجھ سے چھین لی ہے، کندی نے کہا: واہ یہ میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے میں خود اس میں کھیتی کرتا ہوں اس میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا: کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو تمہارے لیے اس کی جانب سے قسم ہے (جیسی وہ قسم کھا لے اسی کے مطابق فیصلہ ہو جائے گا)، حضرمی نے کہا: اللہ کے رسول: وہ تو فاجر ہے کسی بھی قسم کی پرواہ نہیں کرتا، کسی بھی چیز سے نہیں ڈرتا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ کچھ بھی ہو) تمہارے لیے تو بس اس سے اتنا ہی حق ہے (یعنی تم اس سے بس قسم کھلا سکتے ہو) پھر وہ قسم کھانے چلا، تو اس کے مڑتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دیکھو اگر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے اس نے جھوٹی قسم کھا لی تو وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس سے منہ پھیرے ہو گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 61 (139)، سنن الترمذی/الأحکام 12 (1340)، (تحفة الأشراف: 11768)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/317) ویأتی ہذا الحدیث فی القضا (3623) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی طرف التفات نہیں فرمائے گا، بندے کے لئے اس سے بڑھ کر کیا عذاب ہو گا کہ اس کا مالک اس کی طرف متوجہ نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3245  
´جھوٹی قسم کھا کر کسی کا مال ہڑپ کر لینا کیسا ہے؟`
وائل بن حجر حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضر موت کا ایک شخص اور کندہ کا ایک شخص دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، حضرمی نے کہا: اللہ کے رسول! اس شخص نے میرے والد کی ایک زمین مجھ سے چھین لی ہے، کندی نے کہا: واہ یہ میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے میں خود اس میں کھیتی کرتا ہوں اس میں اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں: تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے پوچھا: کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تو تمہارے لیے اس کی جانب سے قسم ہے (جیسی وہ قسم کھا لے اسی کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3245]
فوائد ومسائل:

کسی مقدمہ کے طرفین جس میں کسی صالح کے متعلق گمان ہو کہ سچ کہنا ہوگا۔
اورکسی فاسق کے متعلق یہ وہم ہو کہ یہ جھوٹا ہوگا۔
قاضی کے رو برو برابر ہوتے ہیں۔
ان کا فیصلہ شرعی اصولوں کے تحت ہی ہوگا۔
کہ مدعی گواہ پیش کرے۔
یا مدعا علیہ قسم کھائے۔
(خطابی)
کسی تنازع (جھگڑے) میں طرفین کا ایک دوسرے کو جھوٹ خیانت یا ظلم وغیرہ سے مہتم کرنا ایسی باتیں ہوتی ہیں۔
کہ ان کے متعلق کوئی دعویٰ قبول نہیں کیا جاسکتا۔
(خطابی)
مدعا علیہ کسی بھی دین وملت سے تعلق رکھتا ہو اس سے قسم لی جائے گی جو تسلیم ہوگی۔

جھوٹی قسم کا عتاب انتہائی شدید ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3245