سنن ابي داود
كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل
4. باب الْحَلِفِ بِالأَنْدَادِ
باب: غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3247
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ، فَقَالَ فِي حَلْفِهِ: وَاللَّاتِ، فَلْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ: تَعَالَ أُقَامِرْكَ، فَلْيَتَصَدَّقْ بِشَيْءٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی قسم کھائے اور اپنی قسم میں یوں کہے کہ میں لات کی قسم کھاتا ہوں تو چاہیئے کہ وہ «لا إله إلا الله» کہے، اور جو کوئی اپنے دوست سے کہے کہ آؤ ہم تم جوا کھیلیں تو اس کو چاہیئے کہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرے (تاکہ شرک اور کلمہ شرک کا کفارہ ہو جائے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/تفسیر سورة النجم 2 (4860)، الأدب 74 (6107)، الاستئذان 52 (6301)، الأیمان 5 (6650)، صحیح مسلم/الأیمان 2 (1648)، سنن الترمذی/الأیمان 17 (1545)، سنن النسائی/الأیمان 10 (3806)، سنن ابن ماجہ/الکفارات 2 (2096)، (تحفة الأشراف: 12276)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/309) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6301  
´ آدمی جس کام میں مصروف ہو کر اللہ کی عبادت سے غافل ہو جائے وہ «لهو» میں داخل اور باطل ہے`
«. . . أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ مِنْكُمْ، فَقَالَ فِي حَلِفِهِ: بِاللَّاتِ وَالْعُزَّى، فَلْيَقُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ: تَعَالَ أُقَامِرْكَ، فَلْيَتَصَدَّقْ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جس نے قسم کھائی اور کہا کہ لات و عزیٰ کی قسم، تو پھر وہ «لا إله إلا الله» کہے اور جس نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آؤ جوا کھیلیں تو اسے صدقہ کر دینا چاہئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ: 6301]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6301 کا باب: «بَابُ كُلُّ لَهْوٍ بَاطِلٌ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ طَاعَةِ اللَّهِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے اس کا حدیث کے ساتھ مناسبت ہونا مشکل ہے اور کتاب سے بھی، کتاب سے مشکل اس لیے ہے کہ لہو میں مشغول رہنا استئذان سے تعلق نہیں رکھتا اور حدیث سے مناسبت مشکل ہوں ہے کہ لات اور عزی کی قسم کھانا کس طرح سے باب سے مطابقت رکھتا ہے؟ جبکہ باب میں لات اور عزی کا کوئی ذکر نہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں جو الفاظ ہیں، یہ الفاظ ایک مرفوع حدیث میں وارد ہوئے ہیں، جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں شامل فرمایا، مکمل حدیث اس لیے ذکر نہیں فرمائی کہ وہ آپ کی شرط پر نہ تھی، وہ حدیث درج ذیل ہے:
«عن عقبة بن عامر رضى الله عنه رفعه: كل ما يلهو به المرء المسلم باطل إلا رميه بقوسه وتأديبه فرسه و ملاعبته أهله.» (3)
یعنی ہر وہ چیز جو مسلمان کو غافل کر دے باطل ہے سوائے تیر اندازی، اپنے گھوڑے کی دیکھ بھال اور اپنی بیوی کے ساتھ دل لگی کرنا۔
ترجمۃ الباب سے مناسبت کن نکات کے ساتھ وابستہ ہے اور ترجمۃ الباب کا «كتاب الاستئذان» سے کیا تعلق ہے اس مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علامہ کرمانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
«وجه تعلق هذا الحديث بالترجمة، و الترجمة بالاستئذان أن الداعي إلى القمار لا ينبغي أن يؤذن له فى دخول المنزل، ثم لكونه يتضمن اجتماع الناس، و مناسبة بقية حديث الباب للترجمة أن الحلف باللات لهو يشغل عن الحق بالخلق فهو باطل.» (1)
یعنی ترجمۃ الباب کا تعلق حدیث کے ساتھ یوں ہے کہ لات (اور منات وغیرہ کی) قسم کھانا بھی لہو الحدیث میں داخل ہے جو حرام ہے، اور باب سے کتاب کا تعلق اس طرح سے ہے کہ جو جوا کھیلنے کے لیے بلائے تو اسے گھر میں آنے کی اجازت نہ دی جائے، (کیوں کہ یہ برائی کے کام میں ساتھ دینا ہوا جو لہو میں ہے اور حرام ہے)۔
پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوگی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 206   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2096  
´اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانے کی ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قسم کھائی، اور اپنی قسم میں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی، تو اسے چاہیئے کہ وہ «لا إله إلا الله» کہے: اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الكفارات/حدیث: 2096]
اردو حاشہ:
ایک نو مسلم جو کفر کی حالت میں غیراللہ کی قسم کھانے کا عادی تھا، ہو سکتا ہے اسلام لانے کے بعد اس کے منہ سے پرانی عادت کے مطابق بلا ارادہ یہ شرکیہ الفاظ نکل جائیں اور بعد میں اسے غلطی کا احساس ہو تو ایسے موقع پر اسے چاہیے کہ دوبارہ توحید کا اقرار کرتے ہوئے لا الہ الا اللہ کہہ لے تاکہ یہ کلمہ اس کے شرکیہ الفاظ کا کفارہ بن جائے گا تاہم اس طرح کی غلطی سے آدمی مرتد نہیں ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2096   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3247  
´غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی قسم کھائے اور اپنی قسم میں یوں کہے کہ میں لات کی قسم کھاتا ہوں تو چاہیئے کہ وہ «لا إله إلا الله» کہے، اور جو کوئی اپنے دوست سے کہے کہ آؤ ہم تم جوا کھیلیں تو اس کو چاہیئے کہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرے (تاکہ شرک اور کلمہ شرک کا کفارہ ہو جائے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3247]
فوائد ومسائل:
غیر اللہ کے نام کی قسم کھانا شرک ہے۔
اگر کسی سے دانستہ ایسا ہوجائے۔
تو ا پرکفارہ نہیں بلکہ توبہ استغفار اور تجدید ایمان لازم ہے۔
تاہم نادانستہ غیر ارادی طور پر ایسے الفاظ زبان سے نکل جایئں۔
تو اس کےلئے دل سے لا الہ الا اللہ پڑھ لینا کافی ہے۔
اس طرح جوا کھیلنا حرام ہے۔
تو اس کا کفارہ صدقہ کرنا ہے۔
فرمایا۔
(ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ)(ھود۔
114)
نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3247