سنن ابي داود
كِتَاب الْأَيْمَانِ وَالنُّذُورِ -- کتاب: قسم کھانے اور نذر کے احکام و مسائل
13. باب فِي الْقَسَمِ هَلْ يَكُونُ يَمِينًا
باب: کیا لفظ قسم بھی «يمين» (حلف) میں داخل ہے۔
حدیث نمبر: 3268
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ ابْنُ يَحْيَى: كَتَبْتُهُ مِنْ كِتَابِهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ،عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ،" أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي أَرَى اللَّيْلَةَ، فَذَكَرَ رُؤْيَا، فَعَبَّرَهَا أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصَبْتَ بَعْضًا، وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا، فَقَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ لَتُحَدِّثَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تُقْسِمْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر رہے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا کہ میں نے رات خواب دیکھا ہے، پھر اس نے اپنا خواب بیان کیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تعبیر بتائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کچھ تعبیر درست بیان کی ہے اور کچھ میں تم غلطی کر گئے ہو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: قسم ہے آپ پر اے اللہ کے رسول! میرے باپ آپ پر قربان ہوں آپ ہمیں ضرور بتائیں میں نے کیا غلطی کی ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: قسم مت دلاؤ۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الرؤیا 9 (2293)، سنن ابن ماجہ/الرؤیا 10 (3918)، (تحفة الأشراف: 2293، 1375)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التعبیر 47 (7046)، صحیح مسلم/الرؤیا 3 (2269)، سنن الدارمی/الرؤیا 13 (2202) ویأتی ہذا الحدیث فی السنة (4632) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3918  
´خواب کی تعبیر کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا، اس وقت آپ جنگ احد سے واپس تشریف لائے تھے، اس نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے خواب میں بادل کا ایک سایہ (ٹکڑا) دیکھا جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، اور میں نے لوگوں کو دیکھا کہ اس میں سے ہتھیلی بھربھر کر لے رہے ہیں، کسی نے زیادہ لیا، کسی نے کم، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان تک تنی ہوئی ہے، میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے وہ رسی پکڑی اور اوپر چڑھ گئے، آپ کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، اس کے بعد ایک اور شخص نے پکڑی تو وہ بھی اوپر چڑ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3918]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بزرگ اور استاد کی اجازت سے عام آدمی یا شاگرد تعبیر بیان کرسکتا ہے۔

(2)
رسی پکڑنے سے مراد دین پر عمل کرنا اور تین بزرگوں کا اس رسی کو پکڑنا نبی ﷺ کی نیابت اور خلافت کے منصب پر فائز ہونا ہے۔

(3)
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے رسی کا ٹوٹ جانا ان مشکلات اور فتنوں کی طرف اشارہ ہے جو انھیں پیش آئے۔
اور اسی رسی کے جڑجانے کے بعد اس کے ذریعے سے اوپر چلے جانے سے غالباً یہ اشارہ ہے کہ وہ اس فتنے میں حق پر ہوں گے لہٰذا وہ رسول اللہ ﷺ اور دونوں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی جنت میں ہوں گے۔

(4)
کسی حکمت کی بنا پر خواب کے کچھ کی حصے کی تعبیر بتانا اور کچھ نہ بتانا جائز ہے جیسے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تعبیر میں واقع ہونے والی غلطی کی وضاحت نہیں فرمائی۔

(5)
اس سچے خواب میں خلفائے ثلاثہ کی عظمت وشان کا اظہار ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3918   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4632  
´خلفاء کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں نے رات کو بادل کا ایک ٹکڑا دیکھا، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، پھر میں نے لوگوں کو دیکھا وہ اپنے ہاتھوں کو پھیلائے اسے لے رہے ہیں، کسی نے زیادہ لیا کسی نے کم، اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے، پھر میں نے آپ کو دیکھا اللہ کے رسول! کہ آپ نے اسے پکڑ ا اور اس سے اوپر چلے گئے، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر ایک اور شخص نے اسے پکڑا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، پھر اسے ایک اور ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4632]
فوائد ومسائل:

سچے اور عمدہ خواب مومن کے لیے نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیے گئے ہیں اور ان کے ذریعے سے بندے کو بعض امور کی اطلاع یا بعض امور سے متنبہ کیا جاتا ہے۔


مذکورہ بالا خواب میں خلا فت نبوت کی طرف اشارہ تھا۔
جسے کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بجا طور پر سمجھ گئے تھے۔
اس میں غلطی کیا تھی؟ تو اس کے در پے ہونا قطعاً روا نہیں۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت نہیں فرمائی تو کسی اور کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ظن و تخمیم سے کوئی بات کہے۔


کسی کو لفظ قسم کے ساتھ قسم دینے سے اس کی تعمیل واجب نہیں ہوجاتی۔


کسی تلمیذ یا ادنی کو جائز ہے کہ اپنے شیخ یا بڑے کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت سے کسی سوال کا جواب دے یا اس پر بحث کرے۔
یہ خلاف ادب شمار نہیں ہوگا۔
بلا اجازت بولنا البتہ بے ادبی ہوگی۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4632