سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
1. باب فِي التِّجَارَةِ يُخَالِطُهَا الْحَلِفُ وَاللَّغْوُ
باب: تجارت میں قسم اور لایعنی باتوں کی ملاوٹ ہو جاتی ہے۔
حدیث نمبر: 3326
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، قَالَ:" كُنَّا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ، فَمَرَّ بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمَّانَا بِاسْمٍ هُوَ أَحْسَنُ مِنْهُ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، إِنَّ الْبَيْعَ يَحْضُرُهُ اللَّغْوُ، وَالْحَلِفُ، فَشُوبُوهُ بِالصَّدَقَةِ".
قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سماسرہ ۱؎ کہا جاتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایک اچھے نام سے نوازا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سوداگروں کی جماعت! بیع میں لایعنی باتیں اور (جھوٹی) قسمیں ہو جاتی ہیں تو تم اسے صدقہ سے ملا دیا کرو ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 4 (1208)، سنن النسائی/الأیمان 21 (3828)، البیوع 7 (4468)، سنن ابن ماجہ/التجارات 3 (2145)، (تحفة الأشراف: 11103)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/6،280) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎ «سماسرہ»: «سمسار» کی جمع ہے، عجمی لفظ ہے چونکہ عرب میں اس وقت زیادہ تر عجمی لوگ خرید و فروخت کیا کرتے تھے، اس لئے ان کے لئے یہی لفظ رائج تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے  «تجار» کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے، «سمسار» اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع اور مشتری کے درمیان دلالی کرتا ہے۔
۲؎: یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کر لیا کرو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2145  
´تجارت میں احتیاط برتنے کا بیان۔`
قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں «سماسرہ» (دلال) کہے جاتے تھے، ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے پاس سے گزر ہوا، تو آپ نے ہمارا ایک ایسا نام رکھا جو اس سے اچھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت میں قسمیں اور لغو باتیں بھی ہوتی رہتی ہیں، تو تم اس میں صدقہ ملا دیا کرو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2145]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  (سماسرة)
کا واحد (سِمْسَارٌ)
ہے۔
محمد فواد عبد الباقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس لفظ کی تشریح یوں کی ہے:
(هُوَ الْقَیِّمُ بِأَمْرِ الْبَيْعِ وَالُحَافظُ لَهُ) (حاشية سنن أبي داود، البيوع، باب في التجارة يخالطها الحلف واللغو)
خرید و فروخت کے معاملات کا نگران اور ان کا خیال رکھنے والا۔
یعنی کسی دوسرے کے تجارتی معاملات کا خیال رکھنے والا، منتظم۔
علامہ ابن کثیر  نے النهاية میں اس کی تعریف یوں کی ہے:
(هُوَ فِي الْبَيْعِ اسْمٌ لَّلَّذِي يَدْخُلُ بَيْنَ الْبَائِعِ وَالْمُشْتَرِي، مُتَوَسِّطاً لِاِمْضَاءِ الْبَيْعِ)
یعنی خریدو وفروخت کے معاملات میں یہ لفظ اس شخص کےلیے بولا جاتا ہے جو خريدار اور فروخت کار کے درمیان رابطہ قائم کرکے بیع کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا کرادار ادا کرتا ہے۔

(2)
اس حدیث سے دلال یا کمیشن ایجنٹ کے کام کا جواز ظاہر ہوتا ہے، جبکہ باب: 15(حدیث: 217ا5 تا 2177)
میں اس کی ممانعت مذکور ہے۔
ان حدیثوں کو اس طرح جمع کیا جا سکتا ہے کہ بغیر کمیشن کے خیر خواہی کے طور پر کسی چیز کی خریدو فروخت میں بھائی کی مدد کرنا افضل ہے اور اس کام کی اجرت یا کمیشن وصول کرنا مکروہ ہے۔
امام بخاری نے اپنی کتاب الصحیح میں ایک باب کا عنوان یوں لکھا ہے:
(بَابٌ هَلْ يَبِيْعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ بِغَيْرِ أَجْرٍ؟ وَهَلْ يُعِيْنُهْ أَوْ يَنْصَحُهُ) (صحیح البخاري، البیوع، باب: 68)
کیا شہری آدمی دیہاتی کی طرف سے بغیر اجرت لیے فروخت کر سکتا ہے؟ کیا اس کی مدد اور خیر خواہی کرسکتا ہے؟ اور اس کے ساتھ نبئ اکرمﷺ کا یہ فرمان ذکر کیا ہے:
(إِذَا اسْتَنُصَحَ أحَدُکُمْ أخَاہُ فَلْیِنْصَحُ لَہُ)
جب کوئی شخص اپنے بھائی سے خیر خواہی کا مطالب ہو تو اسے چاہیے کہ اس کی خیر خواہی کرے۔
اس عنوان کے تحت حضرت جریر کی حدیث ذکر کی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے بعض دوسری چیزوں کے ساتھ ہر مسلمان کی خیر خواہی کی شرط پر بھی بیعت کی تھی۔
اور حضرت عبد اللہ بن عباس سے منع کی حدیث کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ دلال نہ بنے، اس لیے امام بخاری نے اگلے باب کا یہ عنوان لکھا ہے:
(بَابٌ مَنْ كَرِهَ أنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبِادٍ بِأَجْرٍ)
 (صحیح البخاري، البیوع، باب: 69)
 شہری کا دیہاتی کے لیے اجرت لے کر فروخت کرنا مکروہ ہے۔
اس کے بعد كتاب الإجارة میں باب أجر المسمسرة (دلالی کی اجرت)
کے عنوان سے فرمایا:
ابن سیرین، عطاء، ابراہیم اور حسن رحمہم اللہ دلال کی اجرت میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
اور حضرت ابن عباس نے فرمایا:
یوں کہنے میں کوئی حرج نہیں:
یہ کپڑا فروخت کرو، اتنی رقم سے جتنی رقم زیادہ ملے گی وہ تمہاری ہے۔
ابن سیرین  نے فرمایا:
یہ چیز اتنے کی بیچ دو، جو نفع ہوگا وہ تمہارا ہے، یا میرے اور تمہارے درمیان تقسیم ہوگا، اس میں کوئی حرج نہیں۔
نبیٔ اکرمﷺ نے فرمایا:
مسلمان اپنی شرطوں کے پابند ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الإجارۃ، باب: 14)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2145   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1208  
´تاجروں کا ذکر اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ان کے نام رکھنے کا بیان۔`
قیس بن ابی غرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم (اس وقت) «سماسرہ» ۱؎ (دلال) کہلاتے تھے، آپ نے فرمایا: اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت کے وقت شیطان اور گناہ سے سابقہ پڑ ہی جاتا ہے، لہٰذا تم اپنی خرید فروخت کو صدقہ کے ساتھ ملا لیا کرو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1208]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سماسرہ سمسارکی جمع ہے،
یہ عجمی لفظ ہے،
چونکہ عرب میں اس وقت عجم زیادہ تجارت کرتے تھے اس لیے ان کے لیے یہی لفظ رائج تھا،
نبی اکرمﷺنے ان کے لیے تجارکا لفظ پسند کیا جوعربی ہے،
سمساراصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع (بیچنے والے) اورمشتری (خریدار) کے درمیان دلالی کرتا ہے۔

2؎:
یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کرلیا کرو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1208   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3326  
´تجارت میں قسم اور لایعنی باتوں کی ملاوٹ ہو جاتی ہے۔`
قیس بن ابی غرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سماسرہ ۱؎ کہا جاتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں ایک اچھے نام سے نوازا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سوداگروں کی جماعت! بیع میں لایعنی باتیں اور (جھوٹی) قسمیں ہو جاتی ہیں تو تم اسے صدقہ سے ملا دیا کرو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3326]
فوائد ومسائل:
یعنی مال صدقہ کرتے رہنا مذکورہ غلط باتوں کا کفارہ ہوتا ہے۔
جیسے اللہ کا فرمان ہے۔
(إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ) (ھود:114) نیکیاں گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔
خرید وفروخت کے دوران میں دونوں فریقوں کو اپنی اپنی جگہ آذادی سے جانچ پڑتال اور غور وخوض کرکے فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
لیکن عموما دوکاندار جو کاروباری معاملات میں زیادہ تجربہ کارہوتے ہیں۔
جھوٹ۔
ملمع سازی۔
اور چکنی چپڑی باتوں کے ذریعےسے خریدارکے آذاد فیصلے پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔
قسم بھی خواہ سچی ہو یا جھوٹی دوسرے فریق کے فیصلے میں جھکائو پیدا کرتی ہے۔
چیز کو بیچنے کےلئے یہ حربے کبھی اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ شریعت کی رو سے حرام قرار پاتے ہیں۔
اور کبھی یہ حربے، ہلکے پھلکےاور کم ضرر رساں ہوتےہیں۔
یہ بھی اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں۔
اس لئے تاجروں کوصدقے کا حکم دیا گیا ہے۔
تاکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی دور ہوسکے۔
آگے باب 6 حدیث3335 میں اسی بات کو نبی کریمﷺ نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔
قسم سودا زیادہ فروخت کرنے کا ذریعہ ہے، مگر اس سے برکت ختم ہوجاتی ہے۔
(قسم برکت کو مٹا دیتی ہے)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3326