سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
9. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي الدَّيْنِ
باب: قرض کے نہ ادا کرنے پر وارد وعید کا بیان۔
حدیث نمبر: 3343
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُصَلِّي عَلَى رَجُلٍ مَاتَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَأُتِيَ بِمَيِّتٍ، فَقَالَ: أَعَلَيْهِ دَيْنٌ؟، قَالُوا: نَعَمْ، دِينَارَانِ، قَالَ: صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، فَقَالَ أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ: هُمَا عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَنَا أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ، فَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا، فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، وَمَنْ تَرَكَ مَالًا، فَلِوَرَثَتِهِ"،
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے جو اس حال میں مرتا کہ اس پر قرض ہوتا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ (میت) لایا گیا، آپ نے پوچھا: کیا اس پر قرض ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں، اس کے ذمہ دو دینار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو ۱؎، تو ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ان کی ادائیگی کی ذمہ داری لیتا ہوں اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، پھر جب اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوحات اور اموال غنیمت سے نوازا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ہر مومن سے اس کی جان سے زیادہ قریب تر ہوں پس جو کوئی قرض دار مر جائے تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہو گی اور جو کوئی مال چھوڑ کر مرے تو وہ اس کے ورثاء کا ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الجنائز 67 (1964)، (تحفة الأشراف: 3158)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/296) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اتنا سخت رویہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے اپنایا تاکہ لوگوں کے حقوق ضائع نہ ہونے پائیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 739  
´ضمانت اور کفالت کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی فوت ہو گیا ہم نے اسے غسل دیا، خوشبو لگائی اور کفن پہنایا۔ پھر ہم اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند قدم آگے بڑھنے کیلئے اٹھائے اور دریافت فرمایا کہ کیا اس کے ذمہ قرض ہے؟ ہم نے عرض کیا دو دینار تھے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے دو دینار کی ادائیگی اپنے ذمہ لے لی۔ پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا دو دینار میرے ذمہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مقروض کی طرح لازم و حق ہو گیا اور میت اس سے بری الذمہ ہو گئی۔ اس نے کہا کہ ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اسے احمد، ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 739»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في التشديد في الدين، حديث:3343، والنسائي، الجنائز، حديث:1964، وأحمد:3 /330، 5 /297، 304، وابن حبان (الإحسان):5 /25،26، حديث:3048.»
تشریح:
1. میت کی جانب سے قرض ادا کرنے کی ضمانت درست ہے۔
2. ضمانت دینے والا آدمی ضمانت کی رقم مرنے والے کے ترکے میں سے نہیں لے سکتا‘ اسے اپنی جیب سے زر ضمانت ادا کرنا ہوگا۔
3.میت کے حقوق مالیہ‘ جو اس پر واجب ہیں‘ مثلاً: حج‘ زکاۃ‘ قرض کی ادائیگی وغیرہ‘ کا اسے فائدہ پہنچتا ہے اور اس کی جانب سے دوسرے کے ادا کرنے سے ادا ہو جاتے ہیں۔
4.قرض ہو یا دوسرے حقوق العباد‘ جب تک ان کی ادائیگی نہ کی جائے یا حقدار یا قرض خواہ خود معاف نہ کر دے‘ کبھی ساقط نہیں ہوتے حتیٰ کہ مرنے کے بعد بھی ازخود معاف نہیں ہوتے۔
5. قرضہ لینا بہت ہی سنگین اور سخت معاملہ ہے‘ حتی الوسع قرض لینے سے گریز ہی کرنا چاہیے‘ اگر اشد مجبوری اور ناگزیر ضرورت کی بنا پر لے لے تو جلد از جلد اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 739