سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
10. باب فِي الْمَطْلِ
باب: قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3345
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيءٍ، فَلْيَتْبَعْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے (چاہے وہ قرض ہو یا کسی کا کوئی حق) اور اگر تم میں سے کوئی مالدار شخص کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی قبول کرے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الحوالة 1 (2288)، 2 (2289)، والاستقراض 12(2400)، صحیح مسلم/المساقاة 7 (1564)، سنن النسائی/البیوع 99 (4695)، (تحفة الأشراف: 13693، 13803)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 68 (1308)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 8 (2403)، موطا امام مالک/البیوع 40 (84)، مسند احمد (2/245، 254، 260، 315، 377، 380، 463، 464، 465)، سنن الدارمی/البیوع 48 (2628) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کر دینا یہی حوالہ ہے، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید عمرو کا مقابلہ بکر سے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کر لے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کرنا چاہئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 526  
´مالدار آدمی کا قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا`
«. . . 354- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: مطل الغني ظلم، وإذا أتبع أحدكم على مليء فليتبع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار آدمی کو قرض اتارنے میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور اگر کوئی (قرض دار آدمی) تمہیں کسی مالدار کے حوالے کر دے (کہ وہ تمہارا قرض ادا کر ے گا) تو اسے قبول کر لینا چاہیے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 526]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2287، ومسلم 33/1564، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر مقروض قرض خواہ سے کہے کہ آپ کو فلاں شخص یا ادارہ میرا قرض ادا کرے گا تو اس پیش کش کو قبول کر لینا چاہئے بشرطیکہ وہ شخص یا ادارہ قابل اعتماد ہو اور مذکورہ رقم ادا کرنے کی ہامی بھر لے۔
➋ موسیٰ بن میسرہ رحمہ اللہ نے ایک آدمی کو سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے پوچھتے ہوئے سنا: میں ایسا آدمی ہوں کہ قرض کے ساتھ خرید کر (آگے) بیچتا ہوں تو سعید رحمہ اللہ نے فرمایا: جب تک تو اسے اپنے گھر میں نہ لے جائے تو آگے نہ بیچ۔ [الموطأ 2/674 ح1417، وسنده صحيح]
● معلوم ہوا کہ کسی شخص سے ادھار سودا خرید کر آگے دوسرے آدمی پر بیچنا صحیح نہیں ہے اور اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ کمپنیوں وغیرہ سے شیئرز کا کاروبار بھی غلط ہے۔
➌ مال ودولت ہونے کے باوجود قرض ادا نہ کرنے والا شخص ظالم ہے لہٰذا وہ فاسق ہے اور اس کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہے۔
➍ شرعی عذر کے بغیر قرض ادا کرنے میں سستی کرنے والے شخص کے خلاف تادیبی کاروائی کی جاسکتی ہے بشرطیکہ اصحابِ اقتدار کی حمایت حاصل ہو۔ اگر کوئی قرضدار سخت مجبور ہو اور اس کے پاس ادائیگی کے لئے کچھ بھی نہ ہو تو پھر اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرنی چاہئے بلکہ اسے مہلت دینے میں ثواب ہے اور اسے صدقہ کردینا بہترین امور میں سے ہے۔ دیکھئے: سورۃ البقرہ: 280
➎ قرض ادا کرنے میں سستی اور ٹال مٹول کرنا یہودیوں کا طریقہ ہے۔ دیکھئے: سورۂ آل عمران: 75، جبکہ اہلِ ایمان وعدے کی پاسداری کرتے اور قرض وقت پر ادا کردیتے ہیں۔ دیکھئے: [فتح الباري 4/466 تحت ح2287]
➏ دلوں میں جدائی اور نفرت ڈالنے والے امور کا خاتمہ دینِ اسلام میں محبوب ومطلوب ہے۔
➐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لوگوں کا مال (بطور قرض واپس) ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے ادا کرے گا (یعنی قرض اتارنے کے وسائل مہیا کرے گا) اور جو کوئی ادا نہ کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے تباہ کردے گا۔ [صحيح بخاري: 2387]
➑ قرض اور نیت دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی مسلمان قرض لیتا ہے اور اللہ اس کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ اسے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا قرض دنیا ہی میں اُتار دیتا ہے۔ [سنن ابن ماجه: 2408، سنن النسائي: 4690، حسن حديث هے۔]
اور جو اس کے برعکس نیت رکھتا ہے تو اس کے بارے میں فرمایا: جو کوئی قرض لیتا ہے اور اس کا پختہ ارادہ ہوتا ہے کہ اسے واپس نہیں کرے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے چور بن کر پیش ہو گا۔ [سنن ابن ماجه: 2410، حسن]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 354   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2403  
´حوالہ (یعنی قرض کو دوسرے کے ذمہ کر دینے) کا بیان ؎۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار کا (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے، اور جب تم میں کوئی کسی مالدار کی طرف تحویل کیا جائے، تو اس کی حوالگی قبول کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2403]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دولت والے سےمراد وہ مقروض ہے جس کے پاس قرض ادا کرنے کےلیے رقم یا کوئی اورچیز موجود ہے اگرچہ عرف عام کے مطابق وہ غریب ہی شمار ہوتا ہو۔

(2)
جب قرض ادا کرنےکی استطاعت ہوتوقرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنا گناہ ہے، سوائے اس کے پہلے سےقرض کی ادائیگی کےلیے ایک خاص مدت کا تعین ہوا ہواوریہ مہلت ابھی باقی ہو، اس صورت میں بھی مقررہ وقت سے پہلے ادا کرنا افضل ہے۔
ٹال مٹول کا مطلب ادائیگی کی طاقت ہونے کے باوجود مزید مہلت طلب کرنا ہے اوریہ ظلم ہے۔

(3)
حوالہ کا مطلب یہ ہے کہ مقروض قرض خواہ سےکہے:
فلاں آدمی کے پاس جاؤ وہ تمھیں رقم ادا کردے گا۔
جس کے پاس جانے کوکہا گیا ہے اگر وہ صاحب استطاعت ہےاورامید ہے کہ ادا کر دے گا توقرض خواہ کو اس سے رابطہ کرنا چاہیے، اگر وہ ادائیگی سےانکارکرے تو دوبارہ اصل مقروض سےمطالبہ کرسکتا ہے۔

(4)
جس کے پاس جانے کا کہا گیا ہے، اگر اس کی ظاہری حالت ایسی نہیں کہ وہ قرض ادا کرنے کے قابل معلوم ہوتا ہو تو قرض خواہ مقروض کی بات ماننے سےانکار کرسکتا ہے، اوراس سےمطالبہ کر سکتا ہےکہ تم خود اس سے یا کسی اور سے وصول کرکے مجھے رقم دو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2403   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 738  
´ضمانت اور کفالت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مالدار آدمی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی مالدار کا حوالہ دیا جائے تو اسے قبول کر لینا چاہیئے۔ (بخاری و مسلم) اور احمد کی ایک روایت میں «فليحتل» (حوالہ قبول کر لے) ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 738»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحوالات، باب الحوالة وهل يرجع في الحوالة، حديث:2287، ومسلم، المساقاة، باب تحريم مطل الغني، حديث:1564، وأحمد:2 /463.»
تشریح:
1. اس حدیث میں حوالے کا بیان ہے جس کے دو معنی بیان کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ مقروض اپنے قرض میں شخصی ضمانت دے‘ یعنی ایک شخص دوسرے سے کہے کہ فلاں صاحب کو قرض دے دو‘ ادائیگی کا ذمہ میں لیتا ہوں۔
اور دوسرا یہ کہ مقروض قرض خواہ کو اپنے مقروض کے سپرد کر دے‘ مثلاً: زید نے خالد سے ہزار روپیہ لینا ہے اور خالد نے حمید سے ہزار روپیہ لینا ہے تو خالد زید سے کہے کہ تم میرا قرض حمید سے وصول کر لو۔
شریعت نے اس صورت کو بھی جائز رکھا ہے‘ بشرطیکہ حمید اس بات کا اقرار کر لے کہ میں نے واقعی خالد کا قرض دینا ہے اور وہ ہزار روپیہ میں تجھے ادا کر دوں گا۔
2. اس حدیث کے الفاظ فَلْیَتَّبِـعْ اور فَلْیَحْتَلْ دونوں کا ماحصل ایک ہی ہے کہ اسے اس پیشکش کو قبول کر لینا چاہیے۔
3. یہ حکم اہل ظاہر کے نزدیک وجوب کے لیے ہے مگر جمہور نے اسے استحباب پر محمول کیا ہے۔
4.عرب ممالک کے بنکوں میں ڈرافٹ کو حوالہ کہا جاتا ہے۔
اور ڈرافٹ بنا کر دینے والا بنک‘ رقم جمع کرانے والے کو ایک رسید جاری کرتا ہے کہ اس رسید کے ذریعے سے فلاں بنک سے یہ رقم وصول کر لی جائے۔
یہ حوالے کا جدید مرو جہ نظام ہے جو کہ شریعت کی اجازت کے عین مطابق ہے۔
إن شاء اللّٰہ۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 738   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1308  
´مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۱؎ اور جب تم میں سے کوئی کسی مالدار کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی اسے قبول کرے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1308]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
قرض کی ادائیگی کے باوجود قرض ادا نہ کرنا ٹال مٹول ہے،
بلاوجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا کبیرہ گناہ ہے۔

2؎:
اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کردینا یہی حوالہ ہے،
مثلاً زیدعمروکا مقروض ہے پھرزید عمروکا مقابلہ بکرسے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکرکے سر ہے اوربکر اسے تسلیم بھی کرلے توعمروکو یہ حوالگی قبول کرنی چاہئے،
اس میں گویا حسن معاملہ کی ترغیب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1308   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3345  
´قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے (چاہے وہ قرض ہو یا کسی کا کوئی حق) اور اگر تم میں سے کوئی مالدار شخص کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی قبول کرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3345]
فوائد ومسائل:
لیکن اگر کوئی نادار ہو اور قرضے کی ادائیگی میں فی الواقع اس سے تاخیر ہورہی ہو تو وہ ظلم نہیں ہوگا نیز تعاون باہمی میں حوالہ قبول کرلینا افضل بات ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3345