سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
12. باب فِي الصَّرْفِ
باب: بیع صرف کا بیان۔
حدیث نمبر: 3348
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، وَعَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الذَّهَبُ بِالْذَهَبِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ".
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا چاندی کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، گیہوں گیہوں کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، اور کھجور کھجور کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو، اور جو جو کے بدلے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو (نقدا نقد ہونے کی صورت میں ان چیزوں میں سود نہیں ہے لیکن شرط یہ بھی ہے کہ برابر بھی ہوں) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 54 (2134)، 74 (2170)، 76 (2174)، صحیح مسلم/البیوع 37 (1586)، سنن الترمذی/البیوع 24 (1243)، سنن النسائی/البیوع 39 (4562)، سنن ابن ماجہ/التجارات 50 (2260، 2259)، (تحفة الأشراف: 10630)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 17 (38)، مسند احمد (1/24، 25، 45)، سنن الدارمی/البیوع 41 (2620) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سونا چاندی کو سونا چاندی کے بدلے میں نقدا بیچنا یہی بیع صرف ہے،اس میں نقدا نقد ہونا ضروری ہے، ادھار درست نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 511  
´ایک ہی جنس میں خرید و فروخت کرتے وقت زیادہ یا کم لینا سود ہے`
«. . . الذهب بالورق ربا إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا إلا هاء وهاء. والتمر بالتمر ربا إلا هاء وهاء والشعير بالشعير ربا إلا هاء وهاء .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا چاندی کے بدلے میں سود ہے سوائے اس کے کہ نقد نقد ہو اور گیہوں گیہوں کے بدلے میں سود ہے سوائے اس کے کہ نقد نقد ہو اور کھجور کھجور کے بدلے میں سود ہے اِلا یہ کہ نقد نقد ہو اور جو جو کے بدلے میں سود ہے اِلا یہ کہ نقد نقد ہو۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 511]

تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 636/2، 637 ح 1370، ك 31 ب 17 ح 38، التمهيد 281/6، 282، الاستذكار: 1290 ● أخرجه البخاري 2174، من حديث مالك به ورواه مسلم 1586، من حديث ابن شهاب به و صرح بالسماع]
تفقه:
➊ ایک ہی جنس میں خرید و فروخت کرتے وقت زیادہ یا کم لینا سود ہے۔
➋ صحیح خبر واحد حجت ہے۔
➌ ایک ہی جنس میں خرید و فروخت کرتے وقت ادھار جائز نہیں ہے۔
➍ صحابۂ کرام امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے جذبے سے سرشار تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➎ بعض اوقت ایک صحیح حدیث بہت بڑے عالم سے بھی مخفی رہ سکتی ہے۔
➏ صحیح حدیث کے مقابل میں کس کا قول حجت نہیں ہے۔
➐ عدم علم کی وجہ سے اجتہادی خطا ہو سکتی ہے جس میں اجتہاد کرنے والا معذور ہوتا ہے۔
➑ سود کی بہت سی اقسام ہیں۔
➒ سود کے سدباب کے لئے شریعت اسلامیہ نے دقیق اہمتام کر رکھا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 10   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2253  
´بیع صرف (سونے چاندی کو سونے چاندی کے بدلے نقد بیچنے) کا بیان اور نقداً کمی و بیشی کر کے نہ بیچی جانے والی چیزوں کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونے کو سونے سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد، اور گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد، اور کھجور کا کھجور سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2253]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خوردنی اشیاء کی اگر جنس ایک ہو تو اور قسمیں مختلف ہوں تو ان کا ایک دوسرے سے تبادلہ دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔

(الف)
دونوں طرف سے برابر مقدار میں چیزدی جائے، مثلاً:
ایک صاع کھجوروں کے بدلے میں ایک صاع دوسری قسم کی کھجوریں لی جا سکتی ہیں لیکن ایک صاع کےبدلے میں دوصاع کھجورین لینا یا دینا درست نہیں۔

(ب)
تبادلہ نقد ہونا چاہیے، یعنی مجلس میں دونوں طرف سے چیز وصول کر لی جائے۔

(2)
سونے چاندی کا بھی یہی حکم ہے۔
سونے کے بدلے میں سونا دست بدست اور برابر وزن میں لیا دیا جانا چاہیے۔

(3)
اگر جنس مختلف ہوتو وزن اور مقدار میں کمی بیشی جائز ہے، مثلاً:
گندم کےبدلے جو، یا سونے کے بدلے میں چاندی کے تبادلے میں مقدار برابر ہونا ضروری نہیں، تاہم تبادلہ دونوں طرف سے فوری ادائیگی کی صورت میں ہونا ضروری ہے۔

(4)
اگر ایک شخص کے پاس ادنیٰ قسم کی گندم ہے اور وہ اعلیٰ قسم کی گندم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ اپنی گندم نقد رقم کے عوض فروخت کر دی جائے، پھر ان پیسوں سے مطلوبہ گندم خرید لی جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2253   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1243  
´صرف کا بیان۔`
مالک بن اوس بن حدثان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں (بازار میں) یہ کہتے ہوئے آیا: درہموں کو (دینار وغیرہ سے) کون بدلے گا؟ تو طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ نے کہا اور وہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے پاس تھے: ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، اور جب ہمارا خادم آ جائے تو ہمارے پاس آ جاؤ ہم (اس کے بدلے) تمہیں چاندی دے دیں گے۔ (یہ سن کر) عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا تم اسے چاندی ہی دو ورنہ اس کا سونا ہی لوٹا دو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: سونے کے بدلے چاندی لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1243]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چاندی کے بدلے سونا،
اور سونا کے بدلے چاندی کم وبیش کرکے بیچنا جائز تو ہے،
مگر نقدانقد اس حدیث کا یہی مطلب ہے،
نہ یہ کہ سونا کے بدلے چاندی کم وبیش کرکے نہیں بیچ سکتے،
دیکھیے:
حدیث (رقم: 1240)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1243