سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
15. باب فِي الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً
باب: جانور کے بدلے جانور کو ادھار بیچنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3356
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً".
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے بدلے جانور ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 21 (1237)، سنن النسائی/البیوع 63 (4624)، سنن ابن ماجہ/التجارات 56 (2270)، (تحفة الأشراف: 4583)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/12، 21، 22)، سنن الدارمی/البیوع 30 (2606) (صحیح) حدیث شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء 2416)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 704  
´سود کا بیان`
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوان کو حیوان کے بدلے میں ادھار فروخت کرنا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن جارود نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 704»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في الحيوان بالحيوان نسيئة، حديث:3356، والترمذي، البيوع، حديث:1237، والنسائي، البيوع، حديث:4624، وابن ماجه، التجارات، حديث:2270، وأحمد:5 /12، 19، 3 /310.»
تشریح:
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حیوان کے بدلے میں حیوان کی ادھار فروخت جائز نہیں‘ مگر اسی باب میں آنے والی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت اور دیگر روایات اس کے معارض ہیں‘ اسی بنا پر جمہور حیوان کے بدلے میں حیوان کو مطلقاً ادھار فروخت کرنا جائز سمجھتے ہیں‘ اگرچہ کمی بیشی بھی ہو۔
اور بعض اس سے منع کرتے ہیں۔
مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے ان دونوں کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ یہاں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے‘ اس لیے کہ نسیئۃکا لفظ اس کا احتمال رکھتا ہے کہ یہ ادھار کے بدلے میں ادھار بیع کی صورت ہے اور یہ کسی کے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے۔
امام خطابی رحمہ اللہ نے اس تطبیق اور جمع کی صورت کو پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ جمع کی یہ صورت اچھی اور عمدہ ہے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ کا رجحان منع کی احادیث کی طرف ہے مگر راجح رائے وہی ہے جسے امام شافعی‘ علامہ خطابی رحمہما اللہ اور جمہور نے اختیار کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 704