سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
19. باب فِي الْمُزَابَنَةِ
باب: مزابنہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 3361
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ كَيْلًا، وَعَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ بِالزَّبِيبِ كَيْلًا، وَعَنْ بَيْعِ الزَّرْعِ بِالْحِنْطَةِ كَيْلًا".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کا اندازہ کر کے سوکھی کھجور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح انگور کا (جو بیلوں پر ہو) اندازہ کر کے اسے سوکھے انگور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے اور غیر پکی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے گیہوں کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے (کیونکہ اس میں کمی و بیشی کا احتمال ہے)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/البیوع 14 (1542)، (تحفة الأشراف: 8273، 8131)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع 82 (2185)، سنن النسائی/البیوع 30 (4537)، 37 (4553)، سنن ابن ماجہ/التجارات 54 (2265)، موطا امام مالک/البیوع 8 (10)، مسند احمد (2/7، 168) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: درخت پر لگے ہوے پھل کا اندازہ کر کے اسے اسی قدر توڑے ہوے پھل کے بدلے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 494  
´مزابنہ اور محاقلہ کا بیان`
«. . . 236- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة، والمزابنة: بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الكرم بالزبيب كيلا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع کیا ہے (اور مزابنہ یہ ہے کہ) درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے اور درخت پر لگے ہوئے انگوروں کو خشک انگوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 494]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2171، و مسلم 1542/72، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ دیکھئے حدیث سابق: 158
➋ دین اسلام میں پوری انسانیت کے لئے فلاح ہی فلاح ہے۔
➌ سد ذرائع کے طور پر اس ذریعے کو بند کر دینا چاہئے جس سے فساد اور شر پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 236   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2265  
´بیع مزابنہ (یعنی درخت کے اوپر کچے پھل کو سوکھے پھل کے بدلے بیچنے) اور بیع محاقلہ (یعنی غلہ کے بدلے زمین دینے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کی کھجور کو جو درختوں پر ہو خشک کھجور کے بدلے ناپ کر بیچے، یا انگور کو جو بیل پر ہو کشمش کے بدلے ناپ کر بیچے، اور اگر کھیتی ہو تو کھیت میں کھڑی فصل سوکھے ہوئے اناج کے بدلے ناپ کر بیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے منع کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2265]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیع مزابنہ ممنوع ہے۔

(2)
بیع مزابنہ کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے باغ کا پھل خریدے اور اس کے عوض مقررہ مقدار میں کھجوریں ادا کرے۔
یا مثلاً یوں کہے:
اس کھیت میں جوفصل تیار ہورہی ہے وہ سب میں پچاس من گندم کے عوض خریدتا ہوں۔
یہ درست نہیں کیونکہ یہ معلوم نہیں کھیت سے جو گندم حاصل ہو گی وہ پچاس من سے کم ہو گی یا زیادہ۔
کھیت کی فصل کےبارے میں اس قسم کا معاہدہ محاقلہ کہلاتا ہے جبکہ باغ کے پھل کےبارے میں یہی معاملہ مزابنہ کہلاتا ہے۔

(3)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مزابنہ میں اس صورت کو بھی شامل کیا ہے کہ کسی بغیر ماپی تولی چیز کےبارے میں کہا جائے کہ اس کی مقدار یہ ہے، مثلاً گندم کا یہ ڈھیر دس من کا ہے۔
یا اس برتن میں میرے اندازے کے مطابق پچاس لٹر تیل ہے۔
یا میں کہتا ہوں کہ مالٹوں کی اس ڈھیری میں دو سو مالٹے ہیں، اگر مقدار کم ہوئی تو اپنے پاس سے پوری کروں گا، اور اگر زیادہ ہوئی تو جتنی زیادہ ہوئی وہ میری ہو گی۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں کہ یہ صورت بیع نہیں بلکہ دھوکے اور قمار (جوئے)
پر مبنی ایک معاملہ ہے۔ (مؤطأ امام مالك، البیوع، باب ماجاء في المزابنة والمحاقلة: 2/ 161)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2265   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3361  
´مزابنہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کا اندازہ کر کے سوکھی کھجور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح انگور کا (جو بیلوں پر ہو) اندازہ کر کے اسے سوکھے انگور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے اور غیر پکی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے گیہوں کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے (کیونکہ اس میں کمی و بیشی کا احتمال ہے)۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3361]
فوائد ومسائل:

درخت یا بیل پر لگے تازہ پھل کو جس کی مقدار متعین نہیں ہوسکتی۔
اس نوع کے خشک پھل سے بیچنا کہ خشک کی مقدار معلوم ومعین ہو یا گندم وغیرہ کے کھیت کو خشک گندم کے عوض بیچنا (مزابنہ) کہلاتا ہے۔


ایک جنس کا باہمی تبادلہ کرتے ہوئے تازہ اور خشک یا عمدہ اور روی کا فرق نہیں کیا جا سکتا۔
دونوں کا نقد اور برابر برابر تبادلہ کیا جائے۔
پھرعلیحدہ علیحدہ نقدی کے عوض بیچا جائے۔
البتہ عرایا جائز ہے۔
جیسے کہ ذکر آرہا ہے۔


اس میں ایک پہلو قدر کے غیر معلوم ہونے کا بھی ہے۔
کیونکہ درخت پر لگی کھجور کا حتمی وزن یا یا کیل ممکن نہیں۔


تازہ کھجور خشک ہونے کے باوجود کم ہو جاتی ہے۔
اور اس کی خشک کھجور کے عوض بیع کی ممانعت صراحت کے ساتھ آچکی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3361