سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
23. باب فِي بَيْعِ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلاَحُهَا
باب: پھلوں کو استعمال کے قابل ہونے سے پہلے بیچنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3371
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ حَتَّى يَسْوَدَّ، وَعَنْ بَيْعِ الْحَبِّ، حَتَّى يَشْتَدَّ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کو جب تک کہ وہ پختہ نہ ہو جائے اور غلہ کو جب تک کہ وہ سخت نہ ہو جائے بیچنے سے منع فرمایا ہے (ان کا کچے پن میں بیچنا درست نہیں)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 21 (1228)، سنن ابن ماجہ/التجارات 32 (2217)، (تحفة الأشراف: 613)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 8 (11)، مسند احمد (3/115، 221، 250) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 496  
´کچا پھل بیچنے کی ممانعت`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى تزهي. فقيل له: يا رسول الله وما تزهي؟ قال حين تحمر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھلوں کے پکنے سے پہلے انہیں بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ پوچھا: گیا: یا رسول اللہ! پکنے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرخ ہو جانا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 496]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1488، 2198، ومسلم 1555/15، من حديث مالك به وصرح حميد بالسماع عند البخاري 2197]

تفقه:
➊ چونکہ اس طرح کے سودے میں کسی ایک فریق کے شدید نقصان کا اندیشہ رہتا ہے اور شدید اختلاف پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے لہٰذا عام لوگوں کو اس سے منع کر دیا گیا ہے۔
➋ اسلامی تجارت کے خصائص میں سے ہے کہ فریقین میں سے کسی فریق کو بھی کوئی نقصان نہ ہو۔
➌ شریعت اسلامیہ میں ہر انسان کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کے ضرر سے محفوظ رہیں۔
➍ ایک چیز جو بعد میں نقصان دیتی ہے، سدِ ذرائع کے طور پر اس کے واقع ہونے سے پہلے منع کیا جا سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 151   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2217  
´استعمال کے لائق ہونے سے پہلے درخت کے کچے پھل کو بیچنا منع ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کی بیع سے منع کیا ہے یہاں تک کہ وہ پکنے کے قریب ہو جائے، اور انگور کی بیع سے منع کیا ہے یہاں تک کہ وہ سیاہ ہو جائے، اور غلے کی بیع سے (بھی منع کیا ہے) یہاں تک کہ وہ سخت ہو جائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2217]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مختلف اجناس کا قابل فروخت ہونا مختلف انداز سے ظاہر ہوتا ہے۔

(2)
  باغ کے پھل جب کچے ہوتے ہیں تو سبز ہوتے ہیں، بعد میں آہستہ آہستہ ان کا اصلی رنگ ظاہر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
اس وقت ان پھلوں کو بیچنا درست ہے۔
رنگ بدلنے سے اصل مقصد یہی ہے کہ اتنے بڑے ہوجائیں کہ موسمی خطرات سے نکل آئیں۔

(3)
گندم وغیرہ کی بالیوں میں دانے نرم و نازک ہوتے ہیں، بعد میں آہستہ آہستہ سخت ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
اور یہ بھی اندازہ ہوجاتا ہےکہ کھیت میں کتنی پیداور ہوگی۔
اس وقت کھڑی فصل بیچنا جائز ہے، اس سے پہلے نہیں۔

(4)
پھل یا فصل کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد بھی فروخت کرنے کے بعد اگر کوئی آفت آجائے، مثلاً:
آندھی طوفان وغیرہ جس سے فصل تباہ ہوجائے تو فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ قیمت وصول نہ کرے، اگر وصول کرلی ہے تو واپس کردے۔ (دیکھیے، حدیث: 2219)

(5)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے، لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود معناً صحیح، قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سنن ابن ماجة بتحقیق الدکتور بشار عواد، رقم 2217، و الإرواء للألبانی، رقم: 1364، 1366، والموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد 12/ 37)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2217   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 716  
´بیع عرایا، درختوں اور (ان کے) پھلوں کی بیع میں رخصت`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی اس کے بھی راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کو سیاہ رنگ اختیار کرنے سے پہلے اور دانے کو سخت ہونے سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اسے نسائی کے سوا پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 716»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في بيع الثمار قبل أن يبدو صلاحها، حديث:3371، والترمذي، البيوع، حديث:1228، وابن ماجه، التجارات، حديث:2217، وأحمد:3 /221، وابن حبان (الإحسان):7 /231 /حديث:4972، والحاكم:2 /19، حميد الطويل مدلس وعنعن.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر مفصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی وجہ سے قابل حجت اور قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۱۲ /۳۷‘ والإرواء للألباني‘ رقم: ۱۳۶۴. ۱۳۶۶) 2.گندم وغیرہ کے دانے بالیوں میں نرم و نازک ہوتے ہیں‘ پھر آہستہ آہستہ سخت ہو جاتے ہیں۔
اس وقت ان کے ضائع ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے‘ نیز یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کھیت میں کتنی پیداوار ہو گی۔
اس وقت کھڑی فصل بیچنا جائز ہے‘ اس سے قبل نہیں۔
لیکن پھل یا فصل کی صلاحیت ظاہر ہونے کے بعد بھی فروخت کرنے کے بعد اگر کوئی آفت وغیرہ آ جاتی ہے جس سے فصل تباہ ہو جاتی ہے تو فروخت کرنے والے کو چاہیے کہ قیمت واپس کر دے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص باغ کا پھل وغیرہ فروخت کرے‘ پھر اس پر آفت آ جائے تو بیچنے والے کو چاہیے کہ اپنے بھائی کے مال سے کچھ نہ لے‘ یعنی اس کی قیمت وصول نہ کرے۔
آپ نے فرمایا: وہ اپنے مسلمان بھائی کا مال کس وجہ سے لیتا ہے؟ (صحیح مسلم‘ المساقاۃ‘ باب وضع الجوائح‘ حدیث:۱۵۵۴) نیز اگلی روایت سے بھی اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔
بنابریں ان احادیث کی رو سے فروخت کرنے والے کے لیے آفت آنے کے بعد فصل کی قیمت اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 716