سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
24. باب فِي بَيْعِ السِّنِينَ
باب: کئی سال کے لیے پھل بیچ دینا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3374
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَيَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَتِيقٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ بَيْعِ السِّنِينَ، وَوَضَعَ الْجَوَائِحَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَصِحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الثُّلُثِ شَيْءٌ، وَهُوَ رَأْيُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی سالوں کے لیے پھل بیچنے سے روکا ہے، اور آفات سے پہنچنے والے نقصانات کا خاتمہ کر دیا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثلث کے سلسلے میں کوئی صحیح چیز ثابت نہیں ہے اور یہ اہل مدینہ کی رائے ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/البیوع 17 (1536)، سنن النسائی/البیوع 29 (4535)، سنن ابن ماجہ/التجارات 33 (2218)، (تحفة الأشراف: 2269)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/309)، 29 (4535) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کیوں کہ یہ بیع معدوم اور غیر موجود کی بیع ہے، اور آفات سے پہنچے نقصانات کا معاوضہ کیا ہے۔
۲؎: مطلب یہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اگر آفت ثلث اور اس سے زیادہ مال پر آئی ہے تو یہ نقصان بیچنے والے کے ذمہ ہوگا اور اگر ثلث سے کم ہے تو مشتری یعنی خرید ار خود اس کا ذمہ دار ہوگا تو ثلث کی قید کے ساتھ کوئی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2218  
´کئی سال کے لیے پھلوں کے بیچنے اور پھلوں کو لاحق ہونے والی آفات کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی سال کے لیے (پھلوں کی) بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2218]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کئی سال کی بیع سے مراد یہ ہے، مثلاً آئندہ دو تین سال کا پھل پہلے ہی بیچ کر قیمت وصول کر لے یہ منع ہے۔

(2)
اس کی ممانعت میں یہ حکمت ہے کہ یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آئندہ سالوں میں پیدوار کیسی ہوگی، ہوگی بھی یا نہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پھل آ کر تباہ ہو جائے اور خریدار کی رقم ضائع ہو جائے۔
اس لحاظ سے یہ بیع غرر (دھوکے کی بیع)
میں شامل ہے۔

(3)
بیع غرر کی تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2194 تا 2197۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2218