سنن ابي داود
كِتَاب الْبُيُوعِ -- کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
32. باب فِي التَّشْدِيدِ فِي ذَلِكَ
باب: بٹائی کی ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3399
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الْخَطْمِيُّ، قَالَ: بَعَثَنِي عَمِّي أَنَا، وَغُلَامًا لَهُ، إِلَى سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ شَيْءٌ بَلَغَنَا عَنْكَ فِي الْمُزَارَعَةِ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَرَى بِهَا بَأْسًا حَتَّى بَلَغَهُ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ، فَأَتَاهُ فَأَخْبَرَهُ رَافِعٌ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَتَى بَنِي حَارِثَةَ، فَرَأَى زَرْعًا فِي أَرْضِ ظُهَيْرٍ، فَقَالَ:" مَا أَحْسَنَ زَرْعَ ظُهَيْرٍ، قَالُوا: لَيْسَ لِظُهَيْرٍ، قَالَ: أَلَيْسَ أَرْضُ ظُهَيْرٍ؟، قَالُوا: بَلَى، وَلَكِنَّهُ زَرْعُ فُلَانٍ. قَالَ: فَخُذُوا زَرْعَكُمْ، وَرُدُّوا عَلَيْهِ النَّفَقَةَ"، قَالَ رَافِعٌ: فَأَخَذْنَا زَرْعَنَا، وَرَدَدْنَا إِلَيْهِ النَّفَقَةَ، قَالَ سَعِيدٌ: أَفْقِرْ أَخَاكَ أَوْ أَكْرِهِ بِالدَّرَاهِمِ".
ابوجعفر خطمی کہتے ہیں میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک غلام کو سعید بن مسیب کے پاس بھیجا، تو ہم نے ان سے کہا: مزارعت کے سلسلے میں آپ کے واسطہ سے ہمیں ایک خبر ملی ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مزارعت میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث پہنچی تو وہ (براہ راست) ان کے پاس معلوم کرنے پہنچ گئے، رافع رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارثہ کے پاس آئے تو وہاں ظہیر کی زمین میں کھیتی دیکھی، تو فرمایا: (ماشاء اللہ) ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے لوگوں نے کہا: یہ ظہیر کی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ زمین ظہیر کی نہیں ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں زمین تو ظہیر کی ہے لیکن کھیتی فلاں کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا کھیت لے لو اور کھیتی کرنے والے کو اس کے اخراجات اور مزدوری دے دو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (یہ سن کر) ہم نے اپنا کھیت لے لیا اور جس نے جوتا بویا تھا اس کا نفقہ (اخراجات و محنتانہ) اسے دے دیا۔ سعید بن مسیب نے کہا: (اب دو صورتیں ہیں) یا تو اپنے بھائی کو زمین زراعت کے لیے عاریۃً دے دو (اس سے پیداوار کا کوئی حصہ وغیرہ نہ مانگو) یا پھر درہم کے عوض زمین کو کرایہ پر دو (یعنی نقد روپیہ اس سے طے کر لو)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/المزارعة 2 (3920)، (تحفة الأشراف: 3558) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3399  
´بٹائی کی ممانعت کا بیان۔`
ابوجعفر خطمی کہتے ہیں میرے چچا نے مجھے اور اپنے ایک غلام کو سعید بن مسیب کے پاس بھیجا، تو ہم نے ان سے کہا: مزارعت کے سلسلے میں آپ کے واسطہ سے ہمیں ایک خبر ملی ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مزارعت میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے تھے، یہاں تک کہ انہیں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما کی حدیث پہنچی تو وہ (براہ راست) ان کے پاس معلوم کرنے پہنچ گئے، رافع رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو حارثہ کے پاس آئے تو وہاں ظہیر کی زمین میں کھیتی دیکھی، تو فرمایا: (ماشاء اللہ) ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے لوگوں نے کہا: یہ ظہیر کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3399]
فوائد ومسائل:
یہ زمین جس طرح حضرت رافع نے حدیث 3392 میں خود بیان کیا، اسی ایک مروجہ کے طریق کے مطابق دی گئی تھی۔
جس میں ناجائز شرطیں تھیں۔
فریقین کے حصے واضح اور متعین نہ تھے۔
اور لڑائی کا احتمال تھا۔
اس لئے رسول اللہ ﷺ نےمزارعت کا یہ معاہدہ منسوخ کرنے کا حکم دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3399