سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
1. باب فِي كَسْبِ الْمُعَلِّمِ
باب: معلم (مدرس) کو تعلیم کی اجرت لینا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3417
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ عَمْرٌو، حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ نُسَيٍّ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ، فَقُلْتُ: مَا تَرَى فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: جَمْرَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْكَ تَقَلَّدْتَهَا أَوْ تَعَلَّقْتَهَا.
اس سند سے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، لیکن اس سے پہلی والی روایت زیادہ مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے دونوں مونڈھوں کے درمیان ایک انگارا ہے جسے تم نے گلے کا طوق بنا لیا ہے یا اسے لٹکا لیا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5079) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں بقیہ ہیں جو صدوق کے درجہ کے راوی ہیں، یہاں حرف تحدیث کی صراحت ہے، عنعنہ کی حالت میں تدلیس کا اندیشہ ہوتا ہے، نیز مسند احمد (5؍324) ابو المغیرہ نے متابعت کی ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ، للالبانی 256)

وضاحت: ۱؎: جمہور نے اس کی اجازت دی ہے اور دلیل میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث پیش کی ہے کہ جن کاموں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں بہتر اللہ کی کتاب ہے نیز اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے جس میں تعلیم قرآن کے عوض عورت سے نکاح کا ذکر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3417  
´معلم (مدرس) کو تعلیم کی اجرت لینا کیسا ہے؟`
اس سند سے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، لیکن اس سے پہلی والی روایت زیادہ مکمل ہے اس میں یہ ہے کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے دونوں مونڈھوں کے درمیان ایک انگارا ہے جسے تم نے گلے کا طوق بنا لیا ہے یا اسے لٹکا لیا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3417]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
معلم (قرآن) کی کمائی قرآن مجید کی تعلیم دینے والے کی اجرت پر فقہاء نے طویل بحثیں کی ہیں۔
مختلف روایات عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمیعن اور آثار سلف کو سامنے رکھا جائے۔
تو قرآن مجید کی تعلیم کے حوالے سے تین صورتیں سامنے آتی ہیں۔


قرآن مجید کی تعلیم مسلمان معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔
تمام ایسے لوگ جو قرآن مجید کا علم رکھتے ہیں۔
ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے کام کاج سے وقت نکا ل کر قرآن مجید کی تعلیم دیں۔
جس طرح عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اصحاب صفہ رضوان اللہ عنہم اجمیعن میں سے کچھ لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔
یہ عمل خالصتا لوجہ اللہ ہونا چاہیے۔
اس پر کسی طرح کی اجرت لینا ناجائز ہے۔
اس باب کی دونوں حدیثوں کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے لیکن دوسری روایات سے اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
جیسے حضرات صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمیعن کا ایک سفر میں دم کرکے اس کے بدلے میں بکریاں لینے کا واقعہ ہے جس کی نبی کریم ﷺ نے نفی فرمائی۔
بلکہ اس کی توثیق فرماکر اس کی تحسین فرمائی، (صحیح البخاري، الإجارة۔
باب ما یعطی في الرقیة)
 یہ واقعہ یہاں بھی اگلے باب میں آرہا ہے۔
ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق کی یہی صورت ہے۔
کہ تعلیم قرآن پر اس شخص کا اجرت لینا مستحسن نہیں جو اس سے بے نیاز ہو تاہم دوسرے لوگوں کےلئے اس کے جواز سے مفر نہیں۔
بالخصوص جب کہ موجودہ مسلمان ممالک میں حکومتی سطح پرتعلیم وتدریس قرآ ن کا قطعا کوئی اہتمام نہیں ہے۔


رسول اللہ ﷺ یہ خبر دی کہ بعد کے زمانوں میں لوگ قرآن مجید پڑھ کر اس کے ذریعے لوگوں سے سوال کیا کریں گے۔
(جامع الترمذي، فضائل القرآن، باب:25) اس سے مراد ایسے لوگ ہیں۔
جن کا پیشہ ہی مانگنا ہوتا ہے۔
بھیک کےلئے قرآن کو استعمال کرنا چونکہ قرآن کی عظمت وحرمت کے منافی ہے۔
اس لئے واقعی یہ انداز مذموم اور حرام ہے۔


اگر کوئی حکومت یا ادارہ محسوس کرے۔
کہ قرآن مجید کی تعلیم کے لئے عمومی کوششیں ناکافی ہیں۔
اور وہ ایسے لوگوں کی خدمات حاصل کریں۔
جو دیگر ذرائع معاش کو ترک کرکے صرف اسی کام میں مشغول ہوجایئں۔
اور ہمہ وقت مدارس میں قرآن مجید کی تعلیم دیں۔
تو ان کے لئے مناسب وظیفہ معاش مقرر کرنا جائز ہے۔
جس طرح کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ انتظام کیا تھا کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمات حاصل کرکے انھیں شام بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو قرآن مجید پڑھایئں۔
اور فقہ سکھایئں (أسد الغابة)

تذکرہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ) حضرت عمران بن حصین کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دین سکھانے کےلئے بصرہ روانہ فرمایا۔
(أسد الغابة)

تذکرہ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) یہ بات قابل غو ر ہے کہ اپنے طور پرقرآن پڑھانے کی اجرت سے منع کرنے کی روایات حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے منقول ہیں۔
یہی حضرات قرآن مجید کی قراءت اور تعلیم کی طرف متوجہ تھے۔
اور یقینا ً اس پر کوئی اجرت قبول نہ فرماتے تھے۔
لیکن جب حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ حکومت کی طرف سے ان کی خدمات حاصل کیں تو انہوں نے یہ منصب قبول کرلیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3417