سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
7. باب فِي الصَّائِغِ
باب: سنار (جوہری) کا بیان۔
حدیث نمبر: 3432
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق،حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُرَقِيُّ، عَنِ ابْنِ مَاجِدَةَ السَّهْمِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی ابن ماجدہ سہمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (3429)، (تحفة الأشراف: 10613) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (دیکھئے حدیث سابق)
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3432  
´سنار (جوہری) کا بیان۔`
اس سند سے بھی ابن ماجدہ سہمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے ہم مثل روایت کی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3432]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
مذکورہ تینوں روایات ضعیف ہیں۔
سونے چاندی کی بیع کرنے والے اور اس کے زیورات بنانے والے (یعنی سنار) نبی کریمﷺ کے دور میں موجود تھے۔
آپﷺ سے پہلے بھی تھے اور بعد میں بھی رہے ہیں۔
حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حرم مکہ کی اذخر (گھاس) کے حلال رکھے جانے کی ایک علت یہی بیان کی تھی کہ یہ ہمارے گھروں میں استعمال ہوتی ہے۔
اور صراف لوگ بھی اسے استعمال کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں کئی طرح سے ثابت ہے کہ سنار کی کمائی امانت ودیانت کی شرط پر ایک حلال کمائی ہے۔
اور اس میں کوئی عیب نہیں عیب تو خیانت اور جھوٹ میں ہے۔
خواہ کسی میں ہو۔
کہیں بھی ہو۔
(صحیح البخاري، البیوع، باب ما قیل في الصواع)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3432