سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
18. باب فِي فَضْلِ الإِقَالَةِ
باب: بیع فسخ کر دینے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 3460
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے فروخت کا معاملہ فسخ کر لے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ معاف کر دے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/التجارات 26 (2199)، (تحفة الأشراف: 12375)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/252) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس کی تشریح یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی سے کوئی سامان خریدا، مگر اس کو اس سامان کی ضرورت ختم ہو گئی یا کسی وجہ سے اس خرید پر اس کو پچھتاوا ہوگیا، اور خریدا ہوا سامان واپس کر دینا چاہا تو بائع نے سامان واپس کر لیا، تو گویا اس نے ایک مسلمان پر احسان کیا، اس لئے اللہ تعالیٰ بھی اس پر احسان کرے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2199  
´بیع فسخ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کے اقالے کو مان لے (یعنی اس کے ساتھ بیع کے فسخ پر راضی ہو جائے) تو اللہ تعالیٰ (اس احسان کے بدلہ میں) قیامت کے دن اس کے گناہوں کو مٹا دے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2199]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے تفصیل کے لیے دیکھیے: (الإرواء للألباني، رقم: 1334، والصحيحة للألباني، رقم: 2614، والموسوعة الحديثية مسند الإمام أحمد: 12/401، 402)
لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل حجت اور قابل عمل ہے۔

(2)
  اگر سودا کرتے وقت اختیار دیا جائے، یعنی ایک آدمی دوسرے کو کہہ دے کہ اگر تم چاہو تو سودا ختم کر سکتے ہو تو جتنی مدت مقرر کی ہے اس مدت کے اندر بیع فسخ کرنے کا اختیار ہے۔

(3)
  اگر شرط نہ ہوئی ہو، پھر خریدار خریدی ہوئی چیز واپس کرنا چاہے، یا بیچنے والا اسی قیمت پر واپس کر دے۔
یہ بہت ثواب کا کام ہے۔

(4)
۔
بندہ دوسروں سے جس طرح کا سلوک کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے اسی طرح کا سلوک کرتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے:
(إنَّمَا یَرْحَمُ اللہُ مِنْ عِبَادِہِ الرُّحَمَآءَ) (صحیح مسلم، الجنائز، باب البکاء علی المیت، حدیث: 923)
اللہ تعالیٰ اپنے رحم کرنے والے بندوں ہی پر رحم کرتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2199   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 691  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو فروخت کنندہ، کسی مسلمان سے فروخت شدہ مال واپس کر لے، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ و لغزشیں معاف فرما دے گا۔ اسے ابوداؤد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 691»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في فضل الإقالة، حديث:3460، وابن ماجه، التجارات، حديث:2199، وابن حبان(الموارد)، حديث:1103، 1104، والحاكم:2 /45.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
لہٰذا مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی وجہ سے قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (إرواء الغلیل‘ رقم:۱۳۳۴‘ والموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد: ۱۲ /۴۰۱‘ ۴۰۲)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 691   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3460  
´بیع فسخ کر دینے کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے فروخت کا معاملہ فسخ کر لے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ معاف کر دے گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3460]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
جب بیع شرعی اصولوں کے تحت ہوئی۔
سودا قطیعت سے طے ہوگیا۔
اور ایک دھوکا ختم ہوگیا۔
تو اس کے بیچنے والا شرعاً واپسی کا پابند نہیں۔
لیکن اخلاق اور خیرخواہی کا تقاضا ہے۔
کہ دوسرا فریق راضی نہیں۔
تو سودا واپس کرلیا جائے۔
کیونکہ تجارت کی بنیاد ہی باہمی رضا مندی پر ہے۔
اس حدیث میں بیان کردہ امر کی فضیلت کا بیان ہے۔
علاوہ ازیں جس دوکاندارکا سودا سچا اور کھرا ہو۔
اس نے بیچا بھی مناسب نفع کے ساتھ ہو۔
اسے سودا واپس کرلینے میں کوئی تعامل نہیں ہوتا۔
صرف وہی دوکاندار سودا واپس لینے سے انکارکرتا ہے۔
جس کا سودا کھوٹا ہو یا اس نے بہت زیادہ منافع لے کر بیچا ہو۔
اس طرح گویا سودا واپس کرلینے کی فضیلت بیان کرنے میں بالواسطہ اس امر کی ترغیب ہے۔
کہ دوکاندار سودا بھی صحیح رکھیں۔
اور بیچیں بھی مناسب نفع کےساتھ تاکہ کوئی واپس کرنا چاہے تو اسے واپس لینے میں تامل نہ ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3460