سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
20. باب فِي النَّهْىِ عَنِ الْعِينَةِ
باب: بیع عینہ منع ہے۔
حدیث نمبر: 3462
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ. ح وحَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَحْيَى الْبُرُلُّسِيُّ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ إِسْحَاق أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ سُلَيْمَانُ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْخُرَاسَانِيِّ، أَنَّ عَطَاءً الْخُرَاسَانِيّ حَدَّثَهُ، أَنَّ نَافِعًا حَدَّثَهُ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ حَتَّى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْإِخْبَارُ لِجَعْفَرٍ، وَهَذَا لَفْظُهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب تم بیع عینہ ۱؎ کرنے لگو گے گایوں بیلوں کے دم تھام لو گے، کھیتی باڑی میں مست و مگن رہنے لگو گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا، جس سے تم اس وقت تک نجات و چھٹکارا نہ پا سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: روایت جعفر کی ہے اور یہ انہیں کے الفاظ ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 8229)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/42) (صحیح)» ‏‏‏‏ (متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت صحیح ہے ورنہ اس کی سند میں اسحاق الخراسانی اور عطاء الخراسانی دونوں ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: بیع عینہ کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید نے عمرو کے ہاتھ ایک تھان کپڑا ایک ہزار روپے میں ایک مہینہ کے ادھار پر بیچا، پھر آٹھ سو روپیہ نقد دے کر وہ تھان اس نے عمرو سے خرید لیا، یہ بیع سود خوروں نے ایجاد کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 705  
´سود کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جب تم عینہ کی تجارت کرنے لگو گے اور بیلوں کی دمیں پکڑنے لگو گے اور زراعت کو پسند کرو گے اور جہاد کو ترک کر دو گے تو (اس وقت) اللہ تعالیٰ تم پر ذلت و خواری مسلط کر دے گا۔ اس (ذلت) کو تم سے اس وقت تک دور نہیں فرمائے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف پلٹ نہیں آؤ گے۔ اسے ابوداؤد نے نافع کی روایت سے نقل کیا ہے اور اس کی سند میں کلام ہے اور مسند احمد میں مروی عطا رحمہ اللہ کی روایت میں بھی اسی طرح آیا ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں اور ابن قطان نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 705»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في النهي عن العنية، حديث:3462، وأحمد:2 /28، وللحديث شواهد ضعيفة. إسحاق بن أسيد ضيعف علي الراجح.»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر مفصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی درست معلوم ہوتی ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود قابل عمل اور قابل حجت ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
تفصیل کے لیے دیکھیے: (السلسلۃ الصحیحۃ للألباني:۱ /۴۲‘ ۴۵‘ رقم:۱۱) 2. اس حدیث میں بیع عینہ کا ذکر ہے‘ نیز زراعت و کھیتی باڑی اختیار کرنے اور جہاد کو ترک کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذلت و خواری مسلط کیے جانے کی خبرہے۔
3.بیع عینہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک آدمی دوسرے سے کوئی چیز ادھار مانگتا ہے‘ وہ جواب دیتا ہے کہ بھائی میں تمھیں یہ چیز ادھار نہیں دے سکتا مگر فلاں چیز میرے پاس ہے جس کی قیمت دس روپے ہے‘ اگر تم راضی ہو تو میں وہ چیز تجھے پندرہ روپے میں دے سکتا ہوں اور پھر دوبارہ خود ہی وہ اس سے دس روپے میں واپس خرید لے۔
اس طرح پانچ روپے خواہ مخواہ خریدار کے ذمے قرض ہوگیا‘ یا یوں سمجھیں کہ کسی نے ایک کتاب ایک سال کی مدت تک کے لیے سو روپے میں خریدی اور وعدہ کیا کہ سال کے بعد سو روپیہ ادا کر دوں گا‘ مگر کسی وجہ سے وہ سو روپے کا بندوبست نہ کر سکا تو بیچنے والا اس سے وہی چیز ۹۰ روپے میں واپس خرید لے‘ اس طرح دس روپے اس کے ذمے قرض رہ گیا۔
اس بیع میں چونکہ ایک فریق کو نقصان ہوتا ہے‘ اس لیے اسے ممنوع قرار دے دیا۔
راویٔ حدیث:
«حضرت نافع رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ابوعبداللہ نافع بن سرجس مدنی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں۔
ثقہ‘ ثبت اور مشہور و معروف فقیہ ہیں۔
کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی احادیث کا بڑا حصہ انھی کے گرد گردش کرتا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نافع کے توسط سے ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جب میں سنتا ہوں کہ نافع‘ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کرتے ہیں تو پھر مجھے کسی اور سے حدیث سننے کی پروا نہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ صحیح ترین سند مالک عن نافع عن ابن عمر ہے۔
ان سے کثیر مخلوق الٰہی نے روایت کیا ہے۔
۱۱۷ ہجری یا اس کے بعد فوت ہوئے۔
«حضرت عطاء رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ سے مراد غالباً عطاء بن ابو مسلم میسرہ خراسانی ہیں جو مھلب بن أبي صفرہ کے غلام تھے اور ان کی کنیت ابوعثمان تھی۔
شام میں فروکش ہوگئے تھے۔
مشہور و معروف لوگوں میں سے تھے۔
ثقہ اور بڑے تہجد گزار تھے مگر حافظہ کمزور تھا اور کثیر الوہم تھے۔
۱۳۵ ہجری میں ۸۵ برس کی عمر میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 705   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3462  
´بیع عینہ منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب تم بیع عینہ ۱؎ کرنے لگو گے گایوں بیلوں کے دم تھام لو گے، کھیتی باڑی میں مست و مگن رہنے لگو گے، اور جہاد کو چھوڑ دو گے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا، جس سے تم اس وقت تک نجات و چھٹکارا نہ پا سکو گے جب تک اپنے دین کی طرف لوٹ نہ آؤ گے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: روایت جعفر کی ہے اور یہ انہیں کے الفاظ ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3462]
فوائد ومسائل:

بیع عینہ (عین کی زیر کے ساتھ) کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کو ادھار قیمت پر مال حوالے کردے۔
مگر قیمت وصول کرنے سے پہلے ہی اس سے وہی مال دوبارہ خرید لے۔
اور اپنی قیمت فروخت سے کم میں خریدلے اور پھر زائد قیمت وصول کرلے۔


بلاشبہ امت مسلمہ کی ذلت ونکہت انہی اسباب کی وجہ سے ہے۔
خصوصا ً حیلوں سے سود کو اپنانا اور ترک جہاد۔
جس طرح کے فرمان رسول اللہ ﷺ میں ذکر ہوا ہے۔
ولاحول ولا قوة إلا باللہ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3462