صحيح البخاري
كِتَاب الْحَجِّ -- کتاب: حج کے مسائل کا بیان
96. بَابُ مَنْ جَمَعَ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَتَطَوَّعْ:
باب: مغرب اور عشاء مزدلفہ میں ملا کر پڑھنا اور سنت وغیرہ نہ پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1673
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" جَمَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ كُلُّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا بِإِقَامَةٍ، وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا، وَلَا عَلَى إِثْرِ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا".
ہم سے آدم بن ابی العلاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ مزدلفہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھیں تھیں ہر نماز الگ الگ تکبیر کے ساتھ نہ ان دونوں کے درمیان کوئی نفل و سنت پڑھی تھی اور نہ ان کے بعد۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 482  
´مغرب کی نماز کا بیان۔`
سلمہ بن کہیل کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر کو مزدلفہ میں دیکھا، انہوں نے اقامت کہی، اور مغرب کی نماز تین رکعت پڑھی، پھر اقامت کہی، اور عشاء کی نماز دو رکعت پڑھی، پھر انہوں نے ذکر کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ان کے ساتھ اسی جگہ میں ایسا ہی کیا، اور ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھی) اس جگہ میں ایسا ہی کیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 482]
482 ۔ اردو حاشیہ: مغرب کی نماز سفروحضر میں تین رکعت ہی رہتی ہے کیونکہ یہ دن کے وتر ہیں، نصف کرنا ممکن نہیں ہے۔ دورکعا ت پڑھی جائیں تو وترنہیں رہے گی جب کہ عشاء کی نماز سفر میں دورکعت ہو جاتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 482   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 592  
´مسافر کے مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
قریش کے ایک شیخ اسماعیل بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں حمی ۱؎ تک ابن عمر رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہا، جب سورج ڈوب گیا تو میں ڈرا کہ ان سے یہ کہوں کہ نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور ابتدائی رات کی تاریکی ختم ہو گئی، پھر وہ اترے اور مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں، پھر اس کے بعد دو رکعتیں پڑھیں، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 592]
592 ۔ اردو حاشیہ: ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے جمع تاخیر کی ہے، یعنی مغرب کا وقت ختم ہو جانے کے بعد اور عشاء کا وقت آجانے پر دونوں نمازیں پڑھی تھیں۔ گویا سفر میں جمع تاخیر بھی جائز ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 592   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 601  
´جمع بین الصلاتین کے احوال و ظروف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کو چلنے کی جلدی ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع کر کے پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 601]
601 ۔ اردو حاشیہ: گویا سفر کی حالت میں آدمی دو نمازیں اکٹھی پڑھ سکتا ہے اور یہ اتفاقی مسئلہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 601   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 661  
´جو شخص جمع بین الصلاتین کرے وہ اقامت ایک بار کہے یا دو بار کہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں دو نمازیں جمع کیں (اور) ان دونوں میں سے ہر ایک کو ایک اقامت سے پڑھا ۱؎ اور ان دونوں (نمازوں) سے پہلے اور بعد میں کوئی نفل نہیں پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 661]
661 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں ہر نماز کے لیے الگ اقامت کا ذکر ہے جب کہ پچھلی تین روایات میں دونوں کے لیے ایک اقامت کا ذکر ہے اور یہ چاروں روایات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے ہیں۔ پچھلے باب کی پہلی روایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ہے اور اس میں صراحتاً دو اقامتوں کا ذکر ہے اور یہی صحیح ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے بھی دو اقامتوں کی صراحت آئی ہے، لہٰذا جس روایت میں ایک اقامت کا ذکر ہے اس سے مراد ہر نماز کے لیے ایک اقامت ہو گی یا پھر ایک اقامت والی روایت شاذ ہے۔ لیکن بعض کا کہنا ہے کہ جب اس طرح تطبیق ممکن ہے تو پھر شذوذ کے دعوے کی ضرورت نہیں، البتہ اذان ایک ہی کافی ہے کیونکہ وہ صرف لوگوں کو بلانے کے لیے ہوتی ہے۔ جمع کی صورت میں دوسری نماز کے لیے لوگ پہلے سے موجود ہوتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 661   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 887  
´مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ جمع کر کے پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے مزدلفہ میں نماز پڑھی اور ایک اقامت سے مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھیں اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 887]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کے بر خلاف جابر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک اذان اور دو تکبیروں سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے،
واللہ اعلم۔

نوٹ:
(ہر نماز کے لیے الگ الگ اقامت کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے/ دیکھئے اگلی روایت)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 887   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1929  
´مزدلفہ میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مغرب تین رکعت اور عشاء دو رکعت پڑھی، تو مالک بن حارث نے ان سے کہا: یہ کون سی نماز ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ دونوں اسی جگہ ایک تکبیر سے پڑھیں۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1929]
1929. اردو حاشیہ: اس حدیث میں ایک ہی تکبیر سے دو نمازوں کے پڑھنے کا زکر ہے۔جبکہ ہرنماز کے لئے الگ الگ سے اقامت کہناصحیح تر احادیث سے ثابت ہے۔(صحیح البخاری الحج حدیث۔1673)اسی حدیث کی بابت شیخ البانی کہتے ہیں۔کہ یہ روایت (لکل صلاۃ) (یعنی ہرنماز کےلئے الگ الگ تکبیر کہی) کی زیادتی کے ساتھ صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1929   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1673  
1673. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا۔ ان میں ہر ایک نماز کی تکبیر الگ الگ تھی۔ ان دونوں کے درمیان نفل نہیں پڑھے اور نہ ان میں سے کسی کے بعد نفل ہی ادا کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1673]
حدیث حاشیہ:
عینی نے اس سلسلہ میں علماءکے چھ قول نقل کئے ہیں آخری قول یہ کہ پہلی نماز کے لیے اذان کہے اور دونوں کے لیے الگ الگ تکبیر کہے۔
شافعیہ اور حنابلہ کا یہی قول ہے اسی کو ترجیح ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1673   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1673  
1673. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کرکے پڑھا۔ ان میں ہر ایک نماز کی تکبیر الگ الگ تھی۔ ان دونوں کے درمیان نفل نہیں پڑھے اور نہ ان میں سے کسی کے بعد نفل ہی ادا کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1673]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جب مزدلفہ میں مغرب و عشاء کو ایک ساتھ پڑھا جائے تو ان کے درمیان نوافل وغیرہ نہ پڑھے جائیں اور نہ ان کے بعد نفل وغیرہ ہی ادا کرنے چاہئیں کیونکہ جمع کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کے درمیان دوسری کوئی نماز نہ ادا کی جائے۔
یہ تاویل کرنا کہ نماز عشاء کے متصل بعد نفل پڑھنے منع ہیں، اس کے بعد رات کے کسی حصے میں پڑھے جا سکتے ہیں۔
ایسا کرنا محض سخن سازی ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء پڑھ کر لیٹ گئے حتی کہ فجر طلوع ہو گئی۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2950(1218) (2)
سنت یہی ہے کہ اس رات نماز عشاء دو رکعت ادا کر کے انسان سو جائے۔
اتباع سنت میں خیر و برکت ہے اور قیامت کے دن یہی ذریعۂ نجات ہو گا۔
ان مقامات میں شارع ؑ کو یہ بات محبوب ہے کہ مغرب و عشاء کو ملا کر پڑھا جائے۔
ان کے درمیان یا عشاء کے بعد کوئی نوافل ادا نہ کیے جائیں۔
جس کام سے محبوب راضی ہو، محبت کے دعویدار کو بھی وہ کام ذوق و شوق سے انجام دینا چاہیے، البتہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ مزدلفہ میں نماز مغرب کے بعد دو سنت پڑھتے تھے۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1675)
ممکن ہے کہ انہوں نے اسے نماز عشاء کے ساتھ ملا کر نہ پڑھا ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1673