سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
34. باب فِي الرَّجُلِ يَبِيعُ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ
باب: جو چیز آدمی کے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچے۔
حدیث نمبر: 3503
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيُرِيدُ مِنِّي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَفَأَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ. فَقَالَ: لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ".
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آدمی آتا ہے اور مجھ سے اس چیز کی بیع کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں اس سے سودا کر لوں، اور بازار سے لا کر اسے وہ چیز دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البیوع 19 (1232)، سنن النسائی/البیوع 58 (4615)، سنن ابن ماجہ/التجارات 20 (2187)، (تحفة الأشراف: 3436)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/402، 434) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2187  
´جو چیز پاس میں نہ ہو اس کا بیچنا اور جس چیز کا ضامن نہ ہو اس میں نفع لینا منع ہے۔`
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک آدمی مجھ سے ایک چیز خریدنا چاہتا ہے، اور وہ میرے پاس نہیں ہے، کیا میں اس کو بیچ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو نہ بیچو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2187]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  ممنوع صورت کی وضاحت یہ ہے کہ بیچنے والے کے پاس ایک چیز موجود نہیں مگر وہ اس کی قیمت متعین کرے کے وصول کرلیتا ہے اور کہتا ہے:
جب میرے پاس وہ چیز آئے گی، تب تمہیں دے دوں گا۔
معلوم نہیں وہ چیز آئے یا نہ آئے، یا آئے تو خریدار کو پسند آئے یا نہ آئے، یوں وہ چیز دی ہوئی قیمت سے ہلکی ہو۔
اس سے دونوں میں اختلاف اور جھگڑا پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اس لیے یہ صورت منع ہے۔

(2)
  غیر معین چیز کی بیع بھی اس میں شامل ہے، مثلاً:
دریا میں جال ڈالنے سے پہلے یہ کہا جائے کہ جال میں جتنی مچھلیاں آئیں گی وہ میں اتنے کی تمہیں بیچتا ہوں، جب کہ یہ معلوم نہیں کہ جال میں کم مچھلیاں آئیں گی یا زیادہ، چھوٹی مچھلیاں آئیں گی یا بڑی یا آئیں گی ہی نہیں، اس لیے جب مچھلیاں باہر آ جائیں پھر ان کی بیع ہو سکتی ہے۔
پہلی صورت بیع غرر میں شامل ہے۔
جو منع ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 2194، 2195)

(3)
  اگر چیز کی قسم، مقدار اور صفات کا تعین کر لیا جائے نیز ادائیگی کا وقت مقرر ہو جائے تو اس کی قیمت پیشگی دے کر بعد میں مقرر وقت پر چیز وصول کر لینا جائز ہے۔
اسے بیع سلم یا سلف کہتے ہیں۔ (دیکھیے حدیث: 2280، 2282)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2187   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3503  
´جو چیز آدمی کے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچے۔`
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آدمی آتا ہے اور مجھ سے اس چیز کی بیع کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں اس سے سودا کر لوں، اور بازار سے لا کر اسے وہ چیز دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3503]
فوائد ومسائل:

دوکاندار بعض اوقات اپنے گاہکوں کی کئی مطلوبہ چیزیں جو ان کے پاس نہیں ہوتیں۔
اسی وقت بازار سے منگوا کر دیتے ہیں۔
اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ گاہک بس انہی سے متعلق رہے یہ صورت جائز نہیں۔
وہی سودا بیچنا چاہیے۔
جو موجود نہ ہو۔
الا یہ کہ گاہک از خود دوکاندار سے چیز منگوا کر دینے کا مطالبہ کرے۔


کوئی جانور جو بھاگ گیا ہو اسے فروخت کردینا۔
یا کوئی مال فریقین میں متنازع ہو۔
تو فیصلہ اور قبضہ ہونے سے پہلے ہی فروخت کردینا جائز نہیں۔


کوئی چیز خرید رکھی ہو مگر وصول نہ کی ہو۔
اور قبضے میں نہ آئی ہو۔
تو ا س کو بیچنا ناجائز ہے۔
خیال رہے کہ معروف تجارتی طریق پر بیع سلف (سلم) کا معاملہ جائز ہے۔
جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3503