سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
44. باب فِي الرَّجُلِ يَجِدُ عَيْنَ مَالِهِ عِنْدَ رَجُلٍ
باب: جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس پائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 3531
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ السَّائِبِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ وَجَدَ عَيْنَ مَالِهِ عِنْدَ رَجُلٍ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ، وَيَتَّبِعُ الْبَيِّعُ مَنْ بَاعَهُ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس ہو بہو پائے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدار اس شخص کا پیچھا کرے جس نے اس کے ہاتھ بیچا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/البیوع 94 (4685)، (تحفة الأشراف: 4595)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/13، 18) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوة قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)

وضاحت: ۱؎: مثلا کسی نے غصب کیا ہو یا چوری کا مال خرید لیا ہو اور مال والا اپنا مال ہوبہو پائے تو وہی اس مال کا حقدار ہوگا اور خریدار بیچنے والے سے اپنی قیمت کا مطالبہ کرے گا۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3531  
´جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس پائے تو کیا کرے؟`
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنا مال کسی اور کے پاس ہو بہو پائے تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے اور خریدار اس شخص کا پیچھا کرے جس نے اس کے ہاتھ بیچا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3531]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
کوئی غصب شدہ چوری شدہ یا گم شدہ مال اگر کسی کے پاس ملے۔
تو وہ اصل مالک کا حق ہے۔
یعنی خریدار تو وہ مالک اصل مالک کو دے دے۔
اور اپنا نقصان یعنی اس مال کی قیمت اس سے وصول کرے۔
جس سے اس نے خریدا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3531