سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
47. باب الرُّجُوعِ فِي الْهِبَةِ
باب: ہبہ کر کے واپس لے لینا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3538
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبَانُ، وَهَمَّامٌ، وَشُعْبَةُ، قَالُوا: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْعَائِدِ فِي قَيْئِهِ" قَالَ هَمَّامٌ: وَقَالَ قَتَادَةُ: وَلَا نَعْلَمُ الْقَيْءَ إِلَّا حَرَامًا.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے لینے والا قے کر کے اسے پیٹ میں واپس لوٹا لینے والے کے مانند ہے۔ ہمام کہتے ہیں: اور قتادہ نے (یہ بھی) کہا: ہم قے کو حرام ہی سمجھتے ہیں (تو گویا ہدیہ دے کر واپس لے لینا بھی حرام ہی ہوا)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الھبة 14 (2588)، صحیح مسلم/الھبة 2 (1622)، سنن النسائی/الھبة 2 (3672)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 5 (2385)، (تحفة الأشراف: 5662)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البیوع 62، (1299)، مسند احمد (1/250، 280، 289، 291، 339، 342، 345، 349) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2385  
´ہبہ کر کے واپس لینے کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہبہ کر کے واپس لینے والا قے کر کے چاٹنے والے کے مانند ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2385]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہبہ کا مطلب کسی کو کوئی چیز بلامعاوضہ دے دینا ہے۔
اس کامقصد محض اللہ کی رضا کاحصول اورایک مومن سےحسن سلوک ہوتا ہے لہٰذا اسےواپس لینا اپنی نیکی کالعدم کرنے کےبرابر ہے۔
اور حان بوجھ کرنیکی ضائع کرنا بہت بری بات ہے۔

(2)
ہبہ کا ایک فائدہ مسلمانوں کی باہمی محبت واحترام میں اضافہ بھی ہے۔
ہبہ کی ہوئی چیز واپس لینے سے نہ صرف یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے بلکہ باہمی محبت واحترام میں بھی کمی آ جاتی ہے اس طرح فائدے سے نقصان زیادہ ہوجاتا ہے۔

(3)
کتےکےعمل سےتشبیہ دینے کا مقصد اس کام سےنفرت دلانا ہے۔

(4)
والد اولاد کوعطیہ دے کر واپس لےسکتا ہے کیونکہ اولاد کی ملکیت اس کی اپنی ملکیت کےحکم میں ہے۔
دیکھے:
(حدیث: 2377)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2385   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 789  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہبہ کر کے اسے واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو خود قے کرتا ہے اور پھر اسے کھا لیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ ہمارے لیے اس سے بری مثال اور کوئی نہیں کہ جو شخص اپنے ہبہ کو دے کر واپس لیتا ہے وہ اس کتے کی مانند ہے جو خود ہی قے کرتا ہے اور پھر اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 789»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب هبة الرجل لامرأته والمرأة لزوجها، حديث:2589، ومسلم، الهبات، باب تحريم الرجوع في الصدقة بعد القبض، حديث:1622.»
تشریح:
یہ حدیث ہبہ کردہ چیز کو واپس لینے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے‘ البتہ والد اپنی اولاد کو دیے ہوئے ہبہ کے بارے میں اس سے مستثنیٰ ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں موجود ہے۔
مگر احناف کا مذہب یہ ہے کہ ہبہ کردہ چیز کو واپس لینا حلال ہے اور بعض احناف نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی کَالْکَلْبِ… اس کی عدم حرمت پر دلالت کرتا ہے‘ اس لیے کہ کتا تو غیر مکلف ہے اور اس کی اپنی قے اس کے لیے حرام نہیں ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ جب کتا غیر مکلف ہے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اس کی قے اس کے لیے حلال ہے یا حرام کیونکہ تحلیل و تحریم ان فروع میں سے ہے جس کا کسی کو مکلف بنایا گیا ہو جیسا کہ شجر و حجر (درخت اور پتھر) کے بارے میں یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ اندھا یا بینا ہے‘ اس لیے کہ وہ اندھے پن اور بصارت کا محل ہی نہیں‘ لہٰذا اس حدیث میں تشبیہ‘ تحلیل یا تحریم کے اعتبار سے نہیں ہے۔
اور جب یہ تشبیہ‘ تحلیل و تحریم کے اعتبار سے نہیں ہے تو پھر یہ تحلیل و تحریم کے لیے سرے سے دلیل ہی نہیں بن سکتی۔
تحریم تو نص صریح سے ثابت ہے‘ اس لیے اسی کو دلیل بنانا چاہیے۔
اور جہاں تک تشبیہ کا تعلق ہے تو اس سے مقصود اس حرام فعل کی قباحت بیان کرنا‘ اس سے نفرت دلانا‘ اس کی شدید خباثت کا اظہار کرنا اور بدہیبت منظر کی صورت پیش کرنا ہے۔
افسوس! انسان کیسے پسند کرے گا کہ وہ کتے کے درجہ تک پہنچ جائے‘ پھر اس درجہ تک اتر جائے کہ پہلے قے کرے اور پھر اپنی قے چاٹ لے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 789   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1298  
´ہبہ کو واپس لینے پر وارد وعید کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بری مثال ہمارے لیے مناسب نہیں، ہدیہ دے کر واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹتا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1298]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے ہبہ کو واپس لینے کی شناعت وقباحت واضح ہوتی ہے،
ایک تو ایسے شخص کو کُتے سے تشبیہ دی گئی ہے،
دوسرے ہبہ کی گئی چیز کو قے سے تعبیرکیا جس سے انسان انتہائی کراہت محسوس کرتاہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1298