سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
49. باب فِي الرَّجُلِ يُفَضِّلُ بَعْضَ وَلَدِهِ فِي النُّحْلِ
باب: باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3545
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَتِ امْرَأَةُ بَشِيرٍ: انْحَلِ ابْنِي غُلَامَكَ، وَأَشْهِدْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنَةَ فُلَانٍ، سَأَلَتْنِي أَنْ أَنْحَلَ ابْنَهَا غُلَامًا؟، وَقَالَتْ لِي: أَشْهِدْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَهُ إِخْوَةٌ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكُلَّهُمْ أَعْطَيْتَ مِثْلَ مَا أَعْطَيْتَهُ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَلَيْسَ يَصْلُحُ هَذَا، وَإِنِّي لَا أَشْهَدُ إِلَّا عَلَى حَقٍّ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بشیر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے (بشیر رضی اللہ عنہ سے) کہا: اپنا غلام میرے بیٹے کو دے دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر میرے لیے گواہ بنا دیں، تو بشیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: فلاں کی بیٹی (یعنی میری بیوی) نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو غلام ہبہ کروں (اس پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے اور بھی بھائی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان سب کو بھی تم نے ایسے ہی دیا ہے جیسے اسے دیا ہے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ درست نہیں، اور میں تو صرف حق بات ہی کی گواہی دے سکتا ہوں (اس لیے اس ناحق بات کے لیے گواہ نہ بنوں گا) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الھبات 3 (1624)، (تحفة الأشراف: 2720)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/326) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے واضح ہوا کہ اولاد کے مابین عدل و انصاف واجب ہے اور بلا کسی شرعی عذر کے ان میں سے بعض کو بعض پر فوقیت دینا یا خاص کرنا حرام و ناجائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3545  
´باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں بشیر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے (بشیر رضی اللہ عنہ سے) کہا: اپنا غلام میرے بیٹے کو دے دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات پر میرے لیے گواہ بنا دیں، تو بشیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا: فلاں کی بیٹی (یعنی میری بیوی) نے مجھ سے مطالبہ کیا ہے کہ میں اس کے بیٹے کو غلام ہبہ کروں (اس پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے اور بھی بھائی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان سب کو بھی تم نے ایسے ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3545]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
اہم معاملات میں گواہ بنا لینا مستحب ہے۔
اور گواہی ہمیشہ حق وانصاف پر دینی چاہیے کسی ظلم کے معاملے پر گواہ بننا بھی ناجائز اور حرام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3545