سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ -- کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
54. باب فِي تَضْمِينِ الْعَارِيَةِ
باب: مانگی ہوئی چیز ضائع اور برباد ہو جائے تو ضامن کون ہو گا؟
حدیث نمبر: 3562
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيب، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اسْتَعَارَ مِنْهُ أَدْرَاعًا يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَقَالَ: أَغَصْبٌ يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ: لَا، بَلْ عَارِيَةٌ مَضْمُونَةٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذِهِ رِوَايَةُ يَزِيدَ، بِبَغْدَادَ، وَفِي رِوَايَتِهِ بِوَاسِطٍ تَغَيُّرٌ عَلَى غَيْرِ هَذَا.
صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کی لڑائی کے دن ان سے کچھ زرہیں عاریۃً لیں تو وہ کہنے لگے: اے محمد! کیا آپ زبردستی لے رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں عاریت کے طور پر لے رہا ہوں، جس کی واپسی کی ذمہ داری میرے اوپر ہو گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ یزید کی بغداد کی روایت ہے اور واسط ۱؎ میں ان کی جو روایت ہے وہ اس سے مختلف ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 4945)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/401، 6/465) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: واسط عراق کا ایک مشہور شہر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 754  
´ادھار لی ہوئی چیز کا بیان`
سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کے موقع پر اس (صفوان) سے کچھ زرہیں عاریتاً لیں۔ اس نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا آپ زبردستی غصب کر رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! بلکہ ضمانت کے ساتھ عاریتاً لے رہا ہوں۔ اسے ابوداؤد، نسائی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور ایک ضعیف روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بھی بطور شہادت ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 754»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب في تضمين العارية، حديث:3562، والحاكم:2 /47 وصححه، ووافقه الذهبي. وحديث ابن عباس أخرجه الحاكم وصححه علي شرط مسلم، ووافقه الذهبي وإسناده حسن، إسحاق بن عبدالواحد وثقه الجمهور فحديثه لا ينزل عن درجة الحسن. «وفيه قال صفوان: يا رسول الله» ‏‏‏‏»
تشریح:
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے اور اس پر سیرحاصل بحث کی ہے جس سے تصحیح حدیث والی رائے ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے۔
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد اور متابعات کی بنا پر قابل عمل ہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲۴ /۱۳- ۱۵‘ والصحیحۃ للألباني‘ رقم:۶۳۲) 2. نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت صفوان رضی اللہ عنہ سے جنگ حنین کے موقع پر زرہیں عاریتاً لی تھیں اس وقت وہ غیر مسلم تھے‘ لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم سے بھی عاریتاً کوئی چیز لینی جائز ہے۔
3. ضمانت پر مستعار لی ہوئی چیز کو واپس کرنا بھی ضروری ہے۔
اگر کسی وجہ سے ضائع ہو جائے تو اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔
4. عاریتاً چیز لینے والا اگر عمداً اسے تلف و ضائع کر دے تو اس صورت میں سب کے نزدیک اس کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
راویٔ حدیث:
«حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ اس سے صفوان بن اُمَیّہ بن خلف بن وھب قرشي جمحي مراد ہیں جو مکہ کے باشندے تھے۔
مؤلفۃ القلوب صحابہ میں سے تھے اور اشراف قریش میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
فتح مکہ کے روز فرار ہوگئے تھے۔
ان کے لیے امان طلب کی گئی تو واپس لوٹ آئے اور بعد میں حنین میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے لیکن اس وقت یہ حالت کفر میں تھے۔
بعد میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور بہترین اسلام کا ثبوت دیا۔
جن دنوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بلوائیوں نے شہید کیا انھیں ایام میں یہ فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 754