سنن ابي داود
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ -- کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
26. باب الرَّجُلِ يَحْلِفُ عَلَى عِلْمِهِ فِيمَا غَابَ عَنْهُ
باب: آدمی سے کسی ایسے مسئلہ میں جو اس کی موجودگی میں نہ ہوا ہو اس کے علم کی بنیاد پر قسم دلانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3622
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفَرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنِي كُرْدُوسٌ، عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ،" أَنَّ رَجُلًا مِنْ كِنْدَةَ، وَرَجُلًا مِنْ حَضْرَمَوْتَ، اخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَرْضٍ مِنْ الْيَمَنِ، فَقَالَ الْحَضْرَمِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَرْضِي اغْتَصَبَنِيهَا أَبُو هَذَا، وَهِيَ فِي يَدِهِ قَالَ: هَلْ لَكَ بَيِّنَةٌ؟، قَالَ: لَا، وَلَكِنْ أُحَلِّفُهُ وَاللَّهِ مَا يَعْلَمُ أَنَّهَا أَرْضِي اغْتَصَبَنِيهَا أَبُوهُ فَتَهَيَّأَ الْكِنْدِيُّ يَعْنِي لِلْيَمِينِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ".
اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک کندی اور ایک حضرمی یمن کی ایک زمین کے سلسلے میں جھگڑتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، حضرمی نے کہا: اللہ کے رسول! اس (کندی) کے باپ نے مجھ سے میری زمین غصب کر لی ہے اور وہ زمین اس کے قبضے میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے حضرمی نے کہا: نہیں لیکن میں اس کو اس بات پر قسم دلاؤں گا کہ وہ نہیں جانتا کہ میری زمین کو اس کے باپ نے مجھ سے غصب کر لیا ہے؟ تو وہ کندی قسم کے لیے آمادہ ہو گیا، پھر راوی نے پوری حدیث بیان کی (جو گزر چکی نمبر: ۳۲۴۴)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (3244)، (تحفة الأشراف: 159) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2322  
´مدعی اپنے دعوے کے حق میں گواہی پیش کرے اور مدعیٰ علیہ (یعنی جس کے خلاف دعویٰ ہے) اس پر قسم کھائے۔`
اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین مشترک تھی، اس نے میرے حصہ کا انکار کر دیا، تو میں اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ میں نے عرض کیا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے کہا: تم قسم کھاؤ، میں نے عرض کیا: تب تو وہ قسم کھا لے گا اور میرا مال ہڑپ کر جائے گا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا» (سورة آ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2322]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہے۔

(2)
  کسی کی چیز ناجائز طور پر حاصل کرنے کے لیے اس پر جھوٹا دعوٰی کرنا بہت بڑا جرم ہے۔

(3)
  قاضی گواہوں اور شواہد کی بنا پر اپنی سمجھ کےمطابق فیصلہ کرنے کا مکلف ہے۔
اگر اس نے اپنی سمجھ کےمطابق قرآن وحدیث کو سامنے رکھتے ہوئے صحیح فیصلہ کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ گناہ گار نہیں خواہ وہ فیصلہ حقیقت میں غلط ہی ہو لیکن اگر مدعی کو معلوم ہے کہ یہ دعوی جھوٹا ہے تو اس کے لیے کسی کی چیز لینا جائز نہیں خواہ اس کے حق میں فیصلہ ہو گیا ہو۔

اللہ تعالیٰ بات نہیں کرے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور خوشنودی سےبات نہیں کرے گا بلکہ غضب کےساتھ زجر و توبیخ کے طور پر یا محاسبے کے لیے بات کرے گا۔

(5)
  کلام کرنا اللہ کی صفت ہے۔
وہ جب چاہتا ہے جس سے چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے کلام فرماتا ہے تاہم اس کی کوئی صفت مخلوق کی صفت سے مشابہ نہیں۔

(6)
  جن لوگوں کی نیکیاں زیادہ ہوں گی اور گناہ کم اور معمولی ہوں گے اللہ ان کے گناہ معاف کرکے انہیں پاک وصاف کردے گا جب کہ عادی مجرم اور بعض کبیرہ گناہوں کے مرتکب اس معافی سے محروم رہیں گے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2322   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3621  
´مدعی علیہ ذمی ہو تو اسے قسم کھلائی جائے یا نہیں؟`
اشعث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان کچھ (مشترک) زمین تھی، یہودی نے میرے حصہ کا انکار کیا، میں اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے فرمایا: تم قسم کھاؤ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! تب تو یہ قسم کھا کر میرا مال ہڑپ لے گا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم» جو لوگ اللہ کا عہد و پیمان دے کر اور اپنی قسمیں کھا کر تھوڑا مال ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3621]
فوائد ومسائل:
فائدہ: کافر کے ساتھ اگر معاملہ قسم پر آٹھرے تو اس سے اللہ کے پاک اور عظیم نام ہی کی قسم لی جائے۔
اگر وہ جھوٹی قسم کھا جاتے تو صبر کرتے ہوئے یقین رکھنا چاہیے۔
کہ وہ اس جھوٹی قسم کے وبال سے بچ نہیں سکے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3621