سنن ابي داود
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ -- کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
30. باب فِي الْوَكَالَةِ
باب: وکیل بنانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3632
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، قَالَ:" أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَقَالَ: إِذَا أَتَيْتَ وَكِيلِي فَخُذْ مِنْهُ خَمْسَةَ عَشَرَ وَسْقًا، فَإِنِ ابْتَغَى مِنْكَ آيَةً فَضَعْ يَدَكَ عَلَى تَرْقُوَتِهِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کی جانب نکلنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا پھر میں نے عرض کیا: میں خیبر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میرے وکیل کے پاس جانا تو اس سے پندرہ وسق کھجور لے لینا اور اگر وہ تم سے کوئی نشانی طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھ دینا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3131) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)

وضاحت: ۱؎: شاید یہی نشانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وکیل کو بتائی ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 745  
´شراکت اور وکالت کا بیان`
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے خیبر کی طرف جانے کا ارادہ کیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تو خیبر میں میرے وکیل کے پاس پہنچے تو اس سے پندرہ وسق وصول کر لینا۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور انہوں نے اسے صحیح بھی قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 745»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، القضاء، باب في الوكالة، حديث:3632.* ابن إسحاق عنعن، وعلق البخاري ببعض الحديث في صحيحه.»
تشریح:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے جیسا کہ ہمارے فاضل محقق نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے‘ تاہم دیگر دلائل کی رو سے وکیل بنانا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ذاتی کام اپنے وکیل کے ذریعے سے کروا لیا کرتے تھے جیسے کہ بکری خریدنے کا واقعہ۔
(صحیح البخاري‘ المناقب‘ حدیث: ۳۶۴۲) نیز درج ذیل روایات سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔
علاوہ ازیں عمال حکومت سبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور وکیل ہوا کرتے تھے۔
بنابریں مالی معاملات میں کسی کو اپنا وکیل بنانا درست ہے۔
واللّٰہ أعلم۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 745   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3632  
´وکیل بنانے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کی جانب نکلنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا پھر میں نے عرض کیا: میں خیبر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میرے وکیل کے پاس جانا تو اس سے پندرہ وسق کھجور لے لینا اور اگر وہ تم سے کوئی نشانی طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھ دینا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3632]
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
تاہم وکیل بننا بنانا جائز ہے۔
اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ذاتی کام اپنے وکیل کے ذریعے سے کروا لیا کرتے تھے۔
جیسے کہ بکری خریدنے کا واقعہ ہے۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3642) علاوہ ازیں عمال حکومت سبھی رسول اللہ ﷺ کے نائب اوروکیل ہی ہوا کرتے تھے۔
آج کل کے عدالتی نظام میں وکالت ناگزیر ہے۔
اس کے بغیر اپنا حق وصول کرنا ناممکن ہے۔
اس بنا پر صاحب حق کےلئے تو اپنے حق کی وصولی کےلئے وکیل بنانا اور کسی شخص کا اس کےلئے وکیل بننا جائز ہے۔
لیکن کسی دوسرے کا حق غصب کرکے عدالت سے اس پر مہر تصدیق ثبت کرانے کے لئے کسی کو وکیل بنایا اور اس ظالم وغاصب کی وکالت کے لئے کسی کا وکیل بننا قطعا جائز نہیں ہے۔
ایسی وکالت کا سارا معاوضہ یکسر حرام اور ناجائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3632