سنن ابي داود
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ -- کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
31. باب فِي الْقَضَاءِ
باب: قضاء سے متعلق (مزید) مسائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3637
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ:" أَنَّ رَجُلًا خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ الزُّبَيْرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ سورة النساء آية 65".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرۃ کی نالیوں کے سلسلہ میں جھگڑا کیا جس سے وہ سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی کو بہنے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو پھر پانی کو اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو یہ سن کر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! یہ آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں نا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ کھیت کے مینڈھوں تک بھر جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں یہ آیت «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك» قسم ہے تیرے رب کی وہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ کو اپنا فیصل نہ مان لیں (سورة النساء: ۶۵) اسی بابت اتری ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المساقاة 6 (2360)، 8 (2362)، الصلح 12 (2708)، تفسیر سورة النساء 12 (4585)، صحیح مسلم/الفضائل 36 (2357)، سنن الترمذی/الأحکام 26 (1363)، تفسیر النساء (3207)، سنن النسائی/القضاة 26 (5418)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (15)، الرھون 20 (2480)، (تحفة الأشراف: 5275)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/165) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2480  
´وادیوں سے آنے والے پانی کا استعمال کیسے کیا جائے۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک انصاری ۱؎ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حرہ کے نالے کے سلسلے میں جس سے لوگ کھجور کے درخت سیراب کرتے تھے، (ان کے والد) زبیر رضی اللہ عنہ سے جھگڑا کیا، انصاری کہہ رہا تھا: پانی کو چھوڑ دو کہ آگے بہتا رہے، زبیر رضی اللہ عنہ نہیں مانے ۲؎ بالآخر دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس معاملہ لے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر (پانی روک کر) اپنے درختوں کو سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑ دو، انصاری نے یہ سنا تو ناراض ہو گیا اور بولا: اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2480]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
جس طرف سے پانی آ رہا ہو اس طرف کے باغ اور کھیت کو پہلے پانی لینے کا حق ہے۔

(2)
نبئ اکرم ﷺنے پہلے جو فیصلہ دیا تھا اس میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا جائزحق دین کےساتھ ساتھ فریق ثانی کی ضرورت کوبھی مدنظر رکھتےہوئے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کوتھوڑا سا ایثار کرنے کا مشورہ دیا تھا اس انداز کی صلح شرعاً درست ہے۔

(3)
رسول اللہ ﷺکا دوسرا فرمان انصاف کے مطابق فیصلہ تھا جس میں انصاری کودی گئی رعایت واپس لے لی گئی اس میں اس کو ایک لحاظ سے سزا دیتےہوئے انصاف کو قائم رکھا گیا۔

(4)
غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے تاہم رسول اللہ ﷺمعصوم تھے وہ غصےکی حالت میں بھی غلط فیصلہ نہیں دیتے تھے۔

(5)
رسول اللہﷺ پرایمان میں صرف ظاہری اطاعت شامل نہیں بلکہ دل کی پوری آمادگی سےاطاعت اورہرقسم کےشک وشبہ سےمکمل اجتناب ضروری ہے۔

(6)
کسی اختلافی مسئلےمیں جب حدیث نبوی آ جائے تو سے تسلیم کرنا فرض ہے۔

(7)
قرآن مجید کی طرح حدیث نبوی کی تعمیل بھی فرض ہے۔

(8)
کھجور کے درخت کے اردگرد پانی کےلیے جگہ بنائی جاتی ہے جسے تھالہ کہتے ہیں۔
درخت کا تھالہ بھر جائے تو پانی دوسرے درخت کی طرف چھوڑ دیا جائے۔
کھیت میں پانی دینے کےلیےاتنا پانی روکنا چاہیے کہ پاوں کےٹخنے تک پانی کھڑا ہو جائے جیسے کہ اگلی حدیث میں صراحت ہے۔

(9)
آیت اس بارے میں نازل ہوئی ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعہ اوراس قسم کے دوسرے واقعات اس حکم میں داخل ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2480   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3637  
´قضاء سے متعلق (مزید) مسائل کا بیان۔`
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرۃ کی نالیوں کے سلسلہ میں جھگڑا کیا جس سے وہ سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی کو بہنے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو پھر پانی کو اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو یہ سن کر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! یہ آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں نا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأقضية /حدیث: 3637]
فوائد ومسائل:

کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین باوجود صحابی ہونے کے بشری خطائوں کے مرتکب ہوجاتے تھے۔
اور وہ کسی طرح معصوم نہ تھے۔
ان جزوی اور انفرادی تقصیرات کے باوجود کرہ ارض پر پائے جانے والے تمام طبقات انسانی میں ان صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا شرف وفضل غیر متنازع ہے۔
کہ اللہ عزوجل نے انھیں اپنے نبی کریمﷺ کی صحبت اور اپنے دین کی نصرت تقویت اور اشاعت کےلئے منتخب فرمایا تھا۔


قدرتی ندی نالوں اور دریائوں کے پانی کی تقسیم کا یہی شرعی حل ہے۔
کہ اولا مصالحت سے تمام شرکاء اعتدال سے استفادہ کریں۔
لیکن اگر کوئی بعد والا ہٹ دھرمی دکھائے تو پھر پہلے والے کا حق فائق ہے۔
اور جائز ہے کہ وہ اپنے کھیتوں کو خوب سیراب کرکے بعد والے کےلئے پانی چھوڑے۔


سورہ نساء کی یہ آیت مبارکہ (فَلَا وَرَبِّكَ) مسلمانو ں کے شرعی اور معاشرتی تمام امور کومحیط اور شامل ہے۔
اور واجب ہے کہ قرآن وسنت کے فیصلوں کو برضا ورغبت تسلیم کیا جائے ورنہ سرے سے ایمان ہی خطرے میں ہوسکتا ہے۔
عافانا اللہ منه و رزقنا اتباعه۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3637