سنن ابي داود
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- کتاب: مشروبات سے متعلق احکام و مسائل
7. باب فِي الأَوْعِيَةِ
باب: شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔
حدیث نمبر: 3698
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مُعْرِّفُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَهَيْتُكُمْ عَنْ ثَلَاثٍ، وَأَنَا آمُرُكُمْ بِهِنَّ: نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا فَإِنَّ فِي زِيَارَتِهَا تَذْكِرَةً، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ الْأَشْرِبَةِ أَنْ تَشْرَبُوا إِلَّا فِي ظُرُوفِ الْأَدَمِ فَاشْرَبُوا فِي كُلِّ وِعَاءٍ غَيْرَ أَنْ لَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ أَنْ تَأْكُلُوهَا بَعْدَ ثَلَاثٍ فَكُلُوا وَاسْتَمْتِعُوا بِهَا فِي أَسْفَارِكُمْ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں تین چیزوں سے روک دیا تھا، اب میں تمہیں ان کا حکم دیتا ہوں: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا اب تم ان کی زیارت کرو کیونکہ یہ آخرت کو یاد دلاتی ہے ۱؎ اور میں نے تمہیں چمڑے کے علاوہ برتنوں میں پینے سے منع کیا تھا، لیکن اب تم ہر برتن میں پیو، البتہ کوئی نشہ آور چیز نہ پیو، اور میں نے تمہیں تین روز کے بعد قربانی کے گوشت کھانے سے منع کر دیا تھا، لیکن اب اسے بھی (جب تک چاہو) کھاؤ اور اپنے سفروں میں اس سے فائدہ اٹھاؤ۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الجنائز 36 (977)، الأضاحي 5 (1977)، الأشربة 6 (1999)، سنن النسائی/الجنائز 100 (2034)، الأضاحي 36 (4434)، الأشربة 40 (5654، 5655)، (تحفة الأشراف: 2001)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الأشربة 6 (1869)، سنن ابن ماجہ/الأشربة 14 (3405)، مسند احمد (5/350، 355، 356، 357، 361) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: ابتدائے اسلام میں لوگ بت پرستی چھوڑ کر نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اس لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس خوف سے قبر کی زیارت سے منع فرما دیا کہ کہیں دوبارہ یہ شرک میں گرفتار نہ ہو جائیں لیکن جب عقیدہ توحید لوگوں کے دلوں میں راسخ ہو گیا اور شرک اور توحید کا فرق واضح طور پر دل و دماغ میں رچ بس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ انہیں زیارت قبور کی اجازت دی بلکہ اس کا فائدہ بھی بیان کر دیا کہ اس سے عبرت حاصل ہوتی ہے اور یہ آخرت کو یاد دلاتی ہے اور یہ فائدہ اس لئے بھی بتایا کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ اہل قبور سے حاجت روائی چاہنے لگیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 472  
´قبروں کی زیارت جائز ہے`
سیدنا بریدہ بن حصیب اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کرو۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 472]
لغوی تشریح:
«فَزُورُوهَا» «زيارة» سے امر کا صیغہ ہے۔ یہ اجازت ممانعت کے بعد تھی۔
«تُذَكَّرُ» «تذكير» سے ماخوذ ہے، یعنی یاد دہانی کراتی ہے۔
«تُزْهَّدُ» «تزهيد» سے ماخوذ ہے، یعنی دنیا سے بےرغبت و زاہد بنا دیتی ہے۔ زیارت قبور سے بس یہی مقصود و مطلوب ہوتا ہے۔

فوائد و مسائل: اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قبروں کی زیارت جائز ہے۔
➋ ابتداء میں نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا مگر پھر اس کی اجازت دے دی اور اس سے مقصد آخرت کی یاد اور میت کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرنا ہے۔
➌ قبروں پر نذر و نیاز اور عرس وغیرہ کا شریعت مطہرہ میں کوئی جواز نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 472   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1054  
´قبروں کی زیارت کی رخصت کا بیان۔`
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا۔ اب محمد کو اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دے دی گئی ہے۔ تو تم بھی ان کی زیارت کرو، یہ چیز آخرت کو یاد دلاتی ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1054]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس میں قبروں کی زیارت کااستحباب ہی نہیں بلکہ اس کا حکم اورتاکید ہے،
اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ ابتداء اسلام میں اس کام سے روک دیاگیا تھا کیونکہ اس وقت یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان اپنے زمانۂ جاہلیت کے اثرسے وہاں کوئی غلط کام نہ کربیٹھیں پھرجب یہ خطرہ ختم ہوگیا اور مسلمان عقیدۂ توحید میں پختہ ہوگئے تو اس کی نہ صرف اجازت دیدی گئی بلکہ اس کی تاکیدکی گئی تاکہ موت کا تصورانسان کے دل ودماغ میں ہروقت رچابسارہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1054   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3235  
´قبروں کی زیارت کا بیان۔`
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاددہانی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3235]
فوائد ومسائل:

زیارت قبور ایک مشروع او ر مسنون عمل ہے۔
انسان جہاں کہیں مقیم ہو وہاں کے قبرستان کی زیارت کو اپنا معمول بنالے۔
مگر صرف اس مقصد کےلئے دور دراز کا سفر کرنا جائز نہیں۔

زیارت قبور کے مسنون آداب ہیں۔
یعنی قبرستان میں داخل ہونے کی دعا اور مسلمان اہل قبور کے لئے دعائے مغفرت نہ کہ وہاں جا کر نماز پڑھنا۔
یا تلاوت قرآن کرنا۔
قبر کو مقام قبولیت سمجھنا یا صاحب قبر کے واسطے اور وسیلے سے دعا کرنا یا خود اسی کو اپنی حاجات پیش کرنا۔
یہ سب کام حرام ہیں۔
اور اسی طرح قبروں پر میلے ٹھیلے اور عرس وقوالی وغیرہ کا احادیث رسول اللہ ﷺ اور عمل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں کوئی نام ونشان تک نہیں ملتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3235