سنن ابي داود
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- کتاب: مشروبات سے متعلق احکام و مسائل
10. باب فِي صِفَةِ النَّبِيذِ
باب: نبیذ کا وصف کہ وہ کب تک پی جائے۔
حدیث نمبر: 3710
حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا ضَمُرَةُ، عَنْ السَّيْبَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْتَ مَنْ نَحْنُ وَمِنْ أَيْنَ نَحْنُ، فَإِلَى مَنْ نَحْنُ؟، قَالَ: إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لَنَا أَعْنَابًا مَا نَصْنَعُ بِهَا؟، قَالَ: زَبِّبُوهَا، قُلْنَا: مَا نَصْنَعُ بِالزَّبِيبِ؟، قَالَ: انْبِذُوهُ عَلَى غَدَائِكُمْ وَاشْرَبُوهُ عَلَى عَشَائِكُمْ، وَانْبِذُوهُ عَلَى عَشَائِكُمْ وَاشْرَبُوهُ عَلَى غَدَائِكُمْ، وَانْبِذُوهُ فِي الشِّنَانِ وَلَا تَنْبِذُوهُ فِي الْقُلَلِ، فَإِنَّهُ إِذَا تَأَخَّرَ عَنْ عَصْرِهِ صَارَ خَلًّا".
دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں، لیکن کس کے پاس آئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کے پاس پھر ہم نے عرض کیا: اے رسول اللہ! ہمارے یہاں انگور ہوتا ہے ہم اس کا کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے خشک لو ہم نے عرض کیا: اس زبیب (سوکھے ہوئے انگور) کو کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبح کو اسے بھگو دو، اور شام کو پی لو، اور جو شام کو بھگوؤ اسے صبح کو پی لو اور چمڑوں کے برتنوں میں اسے بھگویا کرو، مٹکوں اور گھڑوں میں نہیں کیونکہ اگر نچوڑنے میں دیر ہو گی تو وہ سرکہ ہو جائے گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الأشربة 55 (5738)، (تحفة الأشراف: 11062)، وقد أخرجہ: دی/ الأشربة 13 (2154) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اکثر مٹکوں اور گھڑوں میں تیزی جلد آ جاتی ہے، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ممانعت فرمائی ہے، اور چمڑے کے مشکیزوں میں نبیذ بھگونے کی اجازت دی، کیونکہ اس میں تیزی جلد آ جانے کا اندیشہ نہیں رہتا، اور نچوڑنے میں دیر ہوگی سے مراد مٹکوں اور گھڑوں سے نکال کر بھگوئی ہوئی کشمش کو نچوڑنے میں دیر کرنا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3710  
´نبیذ کا وصف کہ وہ کب تک پی جائے۔`
دیلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ کو معلوم ہے کہ ہم کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں، لیکن کس کے پاس آئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اور اس کے رسول کے پاس پھر ہم نے عرض کیا: اے رسول اللہ! ہمارے یہاں انگور ہوتا ہے ہم اس کا کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے خشک لو ہم نے عرض کیا: اس زبیب (سوکھے ہوئے انگور) کو کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبح کو اسے بھگو دو، اور شام کو پی لو، اور جو شام کو بھگوؤ اسے صبح کو پی لو اور چمڑوں کے ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3710]
فوائد ومسائل:
فائدہ: اصل نبیذ جو حلال ہے وہی ہے جس کی وضاحت خود رسول اللہ کے الفاظ میں آگئی ہے۔
یعنی خشک پھل کے گودے کا پانی میں ملا کر بنایا ہوا مشروب آپ کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ اصل اور حلال نبیذ بغیرابالے یا دھوپ میں رکھے استعمال ہوتی تھی۔
اور بنائے جانے کے بعد اتنے وقت کے اندر کے اس میں تخمیر یا ترشی پیدا ہونے کا عمل بھی شروع نہ ہوتا تھا۔
یہی مشروب زیادہ دیر رکھ کر اور نشہ آور بنا کر پینے والے اسے بھی نبیذ ہی کہتے ہیں۔
بعض فقہاء نے اس طرح کے مشروب کو بھی حلال قرار دیا ہے۔
ان کے نزدیک خمر وہی شراب ہے۔
جو انگور کے رس سے بنائی جاتی ہے۔
ان کے خیال میں باقی سب مشروب حلال ہیں۔
امام ابودائود نے اس باب میں اصل نبیذ کا تعارف اصل نبیذ کی کیفیت اور بننے کے بعد اس کے استعمال کےلئے وقت کی زیادہ سے زیادہ کیا حد ہے۔
سب کچھ تفصیل سے بیان کردیا ہے۔
انہوں نے ان احادیث کے ذریعے واضح کردیا ہے۔
کہ انگور کے رس کے علاوہ دوسرے پھلوں کےگودے سے بنایا جانے والا مشروب جب اس میں تخمیر کا عمل شروع ہوجائے یا اس عمل کے آغاز کےلئے اس میں خامرے شامل ہوجایئں تو وہ حرام ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3710