سنن ابي داود
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- کتاب: مشروبات سے متعلق احکام و مسائل
11. باب فِي شَرَابِ الْعَسَلِ
باب: شہد کا شربت پینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3715
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ، فَذَكَرَ بَعْضَ هَذَا الْخَبَرِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ تُوجَدَ مِنْهُ الرِّيحُ، وَفِي الْحَدِيثِ، قَالَتْ سَوْدَةُ: بَلْ أَكَلْتَ مَغَافِيرَ، قَالَ: بَلْ شَرِبْتُ عَسَلًا سَقَتْنِي حَفْصَةُ، فَقُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْمَغَافِيرُ مُقْلَةٌ وَهِيَ صَمْغَةٌ، وَجَرَسَتْ رَعَتْ، وَالْعُرْفُطُ نَبْتٌ مِنْ نَبْتِ النَّحْلِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیزیں اور شہد پسند کرتے تھے، اور پھر انہوں نے اسی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بہت ناگوار لگتا کہ آپ سے کسی قسم کی بو محسوس کی جائے اور اس حدیث میں یہ ہے کہ سودہ ۱؎ نے کہا: بلکہ آپ نے مغافیر کھائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ میں نے شہد پیا ہے، جسے حفصہ نے مجھے پلایا ہے تو میں نے کہا: شاید اس کی مکھی نے عرفط ۲؎ چاٹا ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مغافیر: مقلہ ہے اور وہ گوند ہے، اور جرست: کے معنی چاٹنے کے ہیں، اور عرفط شہد کی مکھی کے پودوں میں سے ایک پودا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأطعمة 32 (5431)، الأشربة 10 (5599)، 15 (5614)، الطب 4 (5682) (الحیل 12 (6972)، صحیح مسلم/الطلاق 3 (1474)، سنن الترمذی/الأطعمة 29 (1831)، سنن ابن ماجہ/الأطعمة 36 (3323) (تحفة الأشراف: 16796)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/59)، دی/ الأطعمة 34 (2119) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: پچھلی حدیث میں مغافیر کی بات کہنے والی عائشہ رضی اللہ عنہا یا حفصہ رضی اللہ عنہا ہیں، اور اس حدیث میں سودہ رضی اللہ عنہا،یہ دونوں دو الگ الگ واقعات ہیں، اس حدیث میں مذکور واقعہ پہلے کا ہے، اور پچھلی حدیث میں مذکور واقعہ بعد کا ہے جس کے بعد سورۃ التحریم والی آیت نازل ہوئی۔
۲؎: عرفط: ایک قسم کی کانٹے دار گھاس ہے جس میں بدبو ہوتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3715  
´شہد کا شربت پینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میٹھی چیزیں اور شہد پسند کرتے تھے، اور پھر انہوں نے اسی حدیث کا کچھ حصہ ذکر کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بہت ناگوار لگتا کہ آپ سے کسی قسم کی بو محسوس کی جائے اور اس حدیث میں یہ ہے کہ سودہ ۱؎ نے کہا: بلکہ آپ نے مغافیر کھائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ میں نے شہد پیا ہے، جسے حفصہ نے مجھے پلایا ہے تو میں نے کہا: شاید اس کی مکھی نے عرفط ۲؎ چاٹا ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مغافیر: مقلہ ہے اور وہ گوند ہے، اور جرست: کے معنی چاٹنے کے ہیں، اور عرفط شہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3715]
فوائد ومسائل:

شہد اللہ تعالیٰ کی عظیم جامع نعمتوں میں سے ہے۔
اور بے شمار بیماریون کا تریاق ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
 (فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ) (النحل۔
69)
اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے۔


کسی بھی حلال چیز کو اپنے لئے حرام قرار دے لینا نبی کریمﷺکے لئے بھی جائز نہ تھا۔


مذکورہ بالا اور اس قسم کے دیگر واقعات میں ازواج نبیﷺکی آپس میں کشاکش اس بات کی تصریح ہے کہ وہ اس دنیا کی مخلوق تھیں۔
معاشرتی زندگی کے حوالے سے ان کے جزبات فطری تھے۔
وہ معصوم عن الخطا نہ تھیں۔
مگر اللہ عزوجل نے انہیں نبی کریمﷺ کی دل ب بستگی اور اشاعت دین کےلئے منتخب فرمایا لیا تھا۔
ان میں سے ہر ایک کی یہ پُرزور تمنا اور انتہائی کوشش ہوتی تھی کہ جس طرح بھی بن پائے وہ محمد رسول اللہﷺ کی الفت ومحبت اور التفات کا زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرلے۔
اور یہ عین ایمان بھی ہے، اس صورت حال میں اس انداز کے معمولی جھول نظرانداز کردینے کے لائق تھے۔
اور ہیں۔
جہاں ضروری سمجھا گیا، تنبیہ بھی کی گئی ان ازواج مطہرات کا جو قلبی وقالبی ربط وضبط رسول اللہﷺکے ساتھ تھا۔
اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا (يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ) (الأحزاب۔
32)
اے نبیﷺ! کی بیویوں تم عام عورتوں کیطرح نہیں ہو۔
اور نبی کریمﷺ سے فرمایا۔
(لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ) (الأحزاب:52) اے نبی ﷺ!آپ کے لئے ان بیویوں کے بعد اور کوئی عورت حلال نہیں۔
اور نہ آپﷺ ان کے بدلے کوئی او رلا سکتے ہیں۔
خواہ ان کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے۔
ہاں لونڈیاں جائز ہیں۔
انہی فضائل کی بنا پر یہ امت کی مایئں قرار دی گیئں ہیں۔
  (رضی اللہ تعالیٰ عنھن و أرضاھن)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3715