سنن ابي داود
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- کتاب: مشروبات سے متعلق احکام و مسائل
16. باب فِي الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ
باب: پیالہ میں ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3722
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي قُرَّةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ،عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الشُّرْبِ مِنْ ثُلْمَةِ الْقَدَحِ، وَأَنْ يُنْفَخَ فِي الشَّرَابِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے، اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأشربة 15 (1887)، (تحفة الأشراف: 4143)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صفة النبی 7 (12)، مسند احمد (3/80) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3722  
´پیالہ میں ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ کی ٹوٹی ہوئی جگہ سے پینے، اور پینے کی چیزوں میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3722]
فوائد ومسائل:

حدیث میں قوسین والے الفاظ صاحب بزل المجہود نے حاشیے میں زکرکرتے ہوئے ان کی بابت لکھا ہے۔
کہ سنن ابودائود کے بعض نسخوں میں یہ موجود ہیں۔
ہم نے عوام کے استفادے کےلئے انہیں تحریر کردیا ہے۔


پیالے یا پلیٹ میں ٹوٹی ہوئی جگہ کی بالمعوم کما حقہ صفائی نہیں ہوتی، اس لئے ہوسکتا ہے کہ وہ جگہ ہونٹوں کو زخمی کردے۔
یا پیتے وقت مشروب ہونٹوں سے باہر گرنے لگے جو کسی طرح مناسب نہیں۔
ایسے ہی پانی چائے دودھ یا دوسری خوراک میں پھونک مارنا کسی طرح جائز نہیں۔
مگر دم کےلئے پھونک مارنے میں اختلاف ہے۔
کچھ علماء عموم کے تحت اسے بھی ناجائز کہتے ہیں۔
جب کہ کچھ علماء کا موقف ہے کہ دم میں سورۃ فاتحہ اور مسنون دعایئں پڑھنے کی وجہ اس میں کچھ تاثیر پیدا ہوجاتی ہے۔
اس لئے دم کرکے پھونک مارنا جائز ہے۔
(تفصیلی دلائل کےلئے ملاحظہ ہو۔
ہفت روزہ الاعتصام لاہور یکم اگست 2003۔
جلد 555 شمارہ 3)
خیال رہے کہ علماء کرام کا اس قسم کی احادیث میں ان منہیات کو نہی تنزہیی یا مکروہ تنزیہی کہنے کا مفہوم یہ ہوتا ہے۔
کہ اگر کبھی ایسا ہوجائے تو اس کے مرتکب کو مرتکب کبیرہ نہ سمجھا جائے۔
ارشادرسولﷺ بہرحال واجب التعمیل ہوتا ہے۔
اگر کوئی اسے لایعنی جانے یا تحقیر کرتے ہوئے عمداً مخالفت کرے تو یہ کفر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3722   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3720  
´مشک کا منہ موڑ کر اس میں سے پینا منع ہے۔`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکیزوں کا منہ موڑ کر پینے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3720]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
اس سے اگلی حدیث (3721) میں اس کے جواز کا بیان ہے۔
لیکن وہ روایت سندا ضعیف ہے۔
اس لئے ممانعت ہی کو ترجیح ہے۔
تاہم یہ ممانعت بطور تنزیہی ہے۔
جیسا کہ اس سے پہلے حدیث (3719) کے فوائد میں وضاحت کی گئی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3720   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1890  
´مشکیزوں سے منہ لگا کر پینا منع ہے۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) مشکیزوں سے منہ لگا کر پینے سے منع کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة/حدیث: 1890]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں:

(1)
مشکیزہ سے برابر منہ لگا کر پانی پینے سے پانی کا ذائقہ بدل سکتاہے۔

(2)
اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں اس میں کوئی زہریلا کیڑا مکوڑا نہ ہو۔

(3)
مشکیزہ کا منہ اگر کشادہ اور بڑا ہے تو اس کے منہ سے پانی پینے کی صورت میں پینے والا گرنے والے پانی کے چھینٹوں سے نہیں بچ سکتا،
اور اس کے حلق میں ضرورت سے زیادہ پانی جا سکتا ہے کہ جس میں اُچھو آنے کا خطرہ ہوتاہے جو نقصان دہ ہوسکتاہے۔

(4) ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ ممانعت بڑے اور کشادہ منہ والے مشکیزہ سے متعلق ہے۔

(5) کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ رخصت والی روایت اس کے لیے ناسخ ہے۔

(6) عذرکی صورت میں جائز ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1890