سنن ابي داود
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
2. باب فِي اسْتِحْبَابِ الْوَلِيمَةِ عِنْدَ النِّكَاحِ
باب: نکاح ہونے پر ولیمہ کی دعوت کرنا مستحب ہے۔
حدیث نمبر: 3743
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، قَالَ:" ذُكِرَ تَزْوِيجُ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، فَقَالَ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْلَمَ عَلَى أَحَدٍ مِنْ نِسَائِهِ مَا أَوْلَمَ عَلَيْهَا أَوْلَمَ بِشَاةٍ".
ثابت کہتے ہیں`: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے نکاح کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں میں سے کسی کے نکاح میں زینب کے نکاح کی طرح ولیمہ کرتے نہیں دیکھا، آپ نے ان کے نکاح میں ایک بکری کا ولیمہ کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/النکاح 68 (5168)، صحیح مسلم/النکاح 13 (1428)، سنن النسائی/الکبری 4 (6602)، سنن ابن ماجہ/النکاح 24 (1908)، (تحفة الأشراف: 287)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/227) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 362  
´شادی پر حسب استطاعت ولیمہ کرنا مسنون ہے`
«. . . فقال: زنة نواة من ذهب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اولم ولو بشاة . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری ہی کیوں نہ ہو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 362]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5153، من حديث مالك به، ورواه مسلم 81/1427، من حديث حميد الطّويل به وصرّح حميد بالسماع عند البخاري 5072]

تفقه:
➊ شادی پر حسب استطاعت ولیمہ کرنا مسنون ہے۔
➋ افضل یہی ہے کہ نکاح یا شادی کے وقت ہی حق مہر ادا کر دیا جائے۔
➌ اپنی قوم سے باہر دوسری قوم میں شادی کرنا جائز ہے۔ دیکھئے: [تفقه نمبر: 5]
➍ حق مہر زیادہ بھی ہو سکتا ہے اور کم بھی، اس میں کوئی خاص مقدار ثابت نہیں ہے۔ تاہم اس میں بہت زیادہ اسراف اور غلو نہیں کرنا چاہئے جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 2106، ومسند امام أحمد 1/48 ح340 وهو حسن]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «خير النكاح أيسره» بہترین نکاح وہ ہے جو آسان ہو۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان: 4060 دوسرا نسخه 4072 وسنده صحيح، سنن ابي داؤد: 2117، وصححه الحاكم 2/181، 182، عليٰ شرط الشيخين ووافقه الذهبي]
➎ اپنے قبیلے میں اور قبیلے سے باہر دونوں طرح شادی کرنا بالکل صحیح اور جائز ہے۔
➏ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
➐ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اسلام میں مروجہ بارات کا کوئی تصور نہیں ہے، وگرنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صحابہ اپنی محبوب ترین شخصیت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بارات کے ساتھ لے کر نہ جاتے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 150   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3743  
´نکاح ہونے پر ولیمہ کی دعوت کرنا مستحب ہے۔`
ثابت کہتے ہیں: انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے نکاح کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیویوں میں سے کسی کے نکاح میں زینب کے نکاح کی طرح ولیمہ کرتے نہیں دیکھا، آپ نے ان کے نکاح میں ایک بکری کا ولیمہ کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3743]
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ نکاح وحی کی بنیاد پر ہوا تھا۔
اس میں ولی حق مہر اور گواہیوں کا کوئی اہتمام نہ تھا۔
سورہ احزاب میں ہے۔
(فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ) (الأحزاب:37) پس جب زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی تو ہم نے اسے آپ کے نکاح میں دے دیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے لےپالکوں کی بیویوں کے بارے میں کسی طرح کی تنگی نہ رہے جب وہ ان سے اپنا جی بھرلیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3743   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2109  
´مہر کم رکھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے جسم پر زعفران کا اثر دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت سے شادی کر لی ہے، پوچھا: اسے کتنا مہر دیا ہے؟ جواب دیا: گٹھلی (نواۃ ۱؎) کے برابر سونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو چاہے ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2109]
فوائد ومسائل:
1: انسان کو اپنی اسطاعت کے مطابق حق مہر باندھنا چاہیے جو لینا دینا آسان ہو۔

2: زعفران اور دیگر رنگدار چیزیں (پاوڈر) مردوں کو استعمال کر نا جائز نہیں۔

3: شادی یا غمی کے موقع پر بھی قریب وبعید کے عزیزواقارب کو بلا کسی اہم مقصد کے جمع کرنا کوئی سنت نہیں ہے ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے ہوئے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی شادی ہوئی اور رسول ﷺکو خبر نہیں دی گئی۔

4: اصل سنت ولیمہ ہے حسب استطاعت جو میسر آئے بکری ہو یا کم و پیش کچھ اور جیسے کہ رسول ﷺنے سیدہ صفیہ رضی اللہ کے ولیمہ میں ستو ہی پیش فرمائے تھے۔

5: اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہماری شادیاں، سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
مثلا لمبی چوڑی براتیں اور پھر ان کی پر تکلف ضیافت۔
اسی طرح ولیمے میں انواع واقسام کے کھانوں کی بھر مار اور دیگر رسومات اس اسراف وتبذیر اور فضولیات کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
(تفصیل کے لیےدیکھیں مسنون نکاح اور شادی بیاں کی رسومات، مطبوعہ دار السلام تالیف.. حافظ صلاح الدین یوسف صاحب)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2109   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1907  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (کے جسم) پر پیلے رنگ کے اثرات دیکھے، تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک عورت سے گٹھلی کے برابر سونے کے عوض شادی کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «بارك الله لك أولم ولو بشاة» اللہ تمہیں برکت دے ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے ہی کیوں نہ ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1907]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
ارشاد نبوی ہے:
مردوں کی خوشبو وہ ہوتی ہے جس کی مہک ظاہر ہو اور رنگ غیر واضح ہو۔
اور عورتٔ کی خوشبو وہ ہوتی ہے جس کا رنگ ظاہر ہو اور مہک غیر واضح ہو۔ (جامع الترمذي، الأدب، باب ماجاء فی طیب الرجال والنساء، حدیث: 2787)

(2)
رسول اللہ ﷺ نے صحابی کے لباس میں عورتوں کی خوشبو کا نشان دیکھا اس لیے دریافت کیا کہ تم نے عورتوں کی خوشبو کیوں لگا رکھی ہے؟ اس میں ایک لطیف انداز سے تنبیہ بھی ہے کہ اس کا استعمال تمہارے لیے مناسب نہیں۔
اور یہ اشارہ بھی ہے کہ اگر کوئی معقول عذر ہے تو بیان کرو۔

(3)
کسی میں غلطی دیکھ کر فوراً سختی کرنا درست نہیں بلکہ غلطی کرنے والے سے اس کی وجہ دریافت کرنی چاہیے تاکہ اسے اتنی ہی تنبیہ کی جائے جتنی ضروری ہے۔

(4)
گٹھلی سے مراد کجھور کی گٹھلی ہے۔
یہ اس دور کا ایک معروف وزن تھا۔
جس کی مقدار پانچ درہم (تقریبا ڈیڑھ تولہ)
ذکر کی گئی ہے۔ (مرقاۃ شرح مشکاۃ، النکاح، باب الولیمة، حدیث: 3210)

(5)
ارشاد نبوی اگرچہ ایک بکری ہو۔
میں اشارہ ہے کہ ان میں زیادہ کی استطاعت تھی اس سے معلوم ہوا کہ ولیمے میں تکلف نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنی گنجائش کے مطابق جس قدر اہتمام آسانی سے اور زیر بار ہوئے بغیر ہو سکے وہ کافی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1907   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1094  
´ولیمہ کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف کے جسم پر زردی کا نشان دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے ایک عورت سے کھجور کی ایک گٹھلی سونے کے عوض شادی کر لی ہے، آپ نے فرمایا: اللہ تمہیں برکت عطا کرے، ولیمہ ۱؎ کرو خواہ ایک ہی بکری کا ہو ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1094]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎: (أولم ولو بشأة) میں لو تقلیل کے لیے آیا ہے یعنی کم ازکم ایک بکری ذبح کرو،
لیکن نبی اکرمﷺ نے صفیہ کے ولیمہ میں صرف ستواورکجھورپر اکتفاکیا،
اس لیے مستحب یہ ہے کہ ولیمہ شوہر کی مالی حیثیت کے حسب حال ہو،
عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی مالی حالت کے پیش نظرایک بکری کا ولیمہ کم تھا اسی لیے آپﷺ نے اُن سے أَولِم وَلَو بِشَأة فرمایا۔

2؎:
شادی بیاہ کے موقع پر جو کھانا کھلایا جاتا ہے اسے ولیمہ کہتے ہیں،
یہ ولم (واؤکے فتحہ اورلام کے سکون کے ساتھ) سے مشتق ہے جس کے معنی اکٹھا اور جمع ہونے کے ہیں،
چونکہ میاں بیوی اکٹھا ہوتے ہیں اس لیے اس کو ولیمہ کہتے ہیں،
ولیمہ کا صحیح وقت خلوت صحیحہ کے بعد ہے جمہور کے نزدیک ولیمہ سنت ہے اوربعض نے اسے واجب کہا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1094