سنن ابي داود
كِتَاب الْأَطْعِمَةِ -- کتاب: کھانے کے متعلق احکام و مسائل
3. باب فِي كَمْ تُسْتَحَبُّ الْوَلِيمَةُ
باب: دعوت ولیمہ کتنے روز تک مستحب ہے؟
حدیث نمبر: 3746
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، قَالَ: فَدُعِيَ الْيَوْمَ الثَّالِثَ فَلَمْ يُجِبْ، وَحَصَبَ الرَّسُولَ.
اس سند سے بھی سعید بن مسیب سے یہی واقعہ مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پہلے اور دوسرے روز انہوں نے دعوت قبول کر لی پھر جب تیسرے روز انہیں دعوت دی گئی تو قبول نہیں کیا اور قاصد کو کنکری ماری۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3651، 18719) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی قتادہ مدلس اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3746  
´دعوت ولیمہ کتنے روز تک مستحب ہے؟`
اس سند سے بھی سعید بن مسیب سے یہی واقعہ مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پہلے اور دوسرے روز انہوں نے دعوت قبول کر لی پھر جب تیسرے روز انہیں دعوت دی گئی تو قبول نہیں کیا اور قاصد کو کنکری ماری۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3746]
فوائد ومسائل:
فائدہ: یہ روایت سندا ضعیف ہے۔
شیخ عبد التواب ملتانی لکھتے ہیں۔
کہ اگر تینوں دن کھانے والے لوگ ایک ہی ہوں۔
تو تیسرے دن کی دعوت ناجائز ہے۔
اگر مختلف ہوں تو ایام کی کثرت کا کوئی حرج نہیں۔
جو کہ سلف سے ثابت ہے۔
صحیح بخاری میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے۔
دیکھئے۔
(صحیح البخاري، النکاح، باب حق إجابة الولیمة والدعوة ومن أولم سبعة أیام ونحوہ)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3746