سنن ابي داود
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: علاج کے احکام و مسائل
16. باب فِي الْغَيْلِ
باب: رضاعت کے دوران عورت سے جماع کرنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3881
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُهَاجِرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ سِرًّا فَإِنَّ الْغَيْلَ يُدْرِكُ الْفَارِسَ فَيُدَعْثِرُهُ عَنْ فَرَسِهِ".
اسماء بنت یزید بن سکن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اپنی اولاد کو خفیہ قتل نہ کرو کیونکہ رضاعت کے دنوں میں مجامعت شہسوار کو پاتی ہے تو اسے اس کے گھوڑے سے گرا دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/النکاح 61 (2012)، (تحفة الأشراف: 15777)، وقد أخرجہ: مسند احمد 6/453، 457، 458) (حسن) (تراجع الألبانی 397، وصحیح ابن ماجہ: 1648)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2012  
´مدت رضاعت میں بیوی سے جماع کرنے کا بیان۔`
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اپنی اولاد کو خفیہ طور پر قتل نہ کرو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے «غیل» سوار کو گھوڑے کی پیٹھ پر سے گرا دیتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2012]
اردو حاشہ:
فائدہ:
گھوڑے سے گرانے کا مطلب یہ ہے کہ غیلہ کی وجہ سے حاصل ہونے والی کمزوری کا اثر زندگی بھر قائم رہتا ہے حتی کہ جب ایسا بچہ جوان ہوکر شہسوار بن جاتا ہے، تب بھی وہ اس سوار کا مقابلہ نہیں کرسکتا جسے بچپن میں یہ صورت حال پیش نہیں آئی، تاہم یہ حدیث ضعیف ہے، لہٰذا اس قدر احتیاط ضروری نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2012   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3881  
´رضاعت کے دوران عورت سے جماع کرنا کیسا ہے؟`
اسماء بنت یزید بن سکن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اپنی اولاد کو خفیہ قتل نہ کرو کیونکہ رضاعت کے دنوں میں مجامعت شہسوار کو پاتی ہے تو اسے اس کے گھوڑے سے گرا دیتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3881]
فوائد ومسائل:
یہ رویت ضعیف ہے۔
اس کے بالمقابل درجِ ذیل حدیث صحیح ہے۔
یعنی یہ اثر ہونا کو ئی ضروری نہیں، اس لیئے شرعاَ اس کی کو ئی ممانعت نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3881