سنن ابي داود
كِتَاب الطِّبِّ -- کتاب: علاج کے احکام و مسائل
16. باب فِي الْغَيْلِ
باب: رضاعت کے دوران عورت سے جماع کرنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3882
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ جُدَامَةَ الأَسَدِيَّةِ، أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَنْهَى عَنِ الْغِيلَةِ حَتَّى ذُكِّرْتُ أَنَّ الرُّومَ، وَفَارِسَ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ فَلَا يَضُرُّ أَوْلَادَهُمْ"، قَالَ مَالِكٌ: الْغِيلَةُ أَنْ يَمَسَّ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ وَهِيَ تُرْضِعُ.
جدامہ اسدیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے قصد کر لیا تھا کہ «غیلہ» سے منع کر دوں پھر مجھے یاد آیا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔ مالک کہتے ہیں: «غیلہ» یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے حالت رضاعت میں جماع کرے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/النکاح 24 (1442)، سنن الترمذی/الطب 27 (2076)، سنن النسائی/النکاح 54 (3328)، سنن ابن ماجہ/النکاح 6 (2011)، (تحفة الأشراف: 15786)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الرضاع 3 (16)، مسند احمد (6/361، 434)، سنن الدارمی/النکاح 33 (2263) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: پہلی حدیث سے «غیلہ» یعنی عورت بچے کو دودھ پلا رہی ہو تو ان دنوں میں جماع کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے، اور دوسری حدیث سے جواز نکلتا ہے، مگریہ اسی صورت میں ہے کہ اولاد کو نقصان پہنچنے کا ڈر نہ ہو، اگر نقصان پہنچنے کا ڈر ہو تو ایسا کرنا ناجائز ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم361  
´ایام رضاعت میں جماع`
«. . . عن جدامة بنت وهب الاسدية انها قالت: اخبرتني انها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لقد هممت ان انهى عن الغيلة حتى ذكرت الروم وفارس يصنعون ذلك فلا يضر اولادهم شيئا . . .»
. . . سیدہ جدامہ بنت وہب الاسدیہ رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے ارادہ کیا تھا کہ غیلہ (حاملہ یا مرضعہ بیوی سے جماع) سے منع کر دوں لیکن مجھے یاد آیا کہ رومی اور فارسی لوگ ایسا کرتے ہیں تو ان کی اولاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 361]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 1442، من حديث ما لك به .]

تفقه:
➊ اگر عورت اپنے بچے بچی کو دودھ پلا رہی ہو تو ایام نفاس کے بعد خاوند اپنی بیوی سے ایام رضاعت میں جماع کر سکتا ہے۔
➋ پہلی امتوں کے واقعات بیان کرنا جائز ہے بشرطیکہ ان واقعات کی سند صحیح ہو۔
➌ زیادہ علم والا اور افضل انسان اپنے سے کم علم والے اور مفضول سے روایت بیان کر سکتا ہے کیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث سیدہ جدامہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی ہے اور بالاتفاق اہل سنت سیدہ عائشہ ان سے افضل ہیں۔ رضی اللہ عنہما
➍ حاملہ بیوی سے شوہر کا جماع کرنا جائز ہے بشرطیکہ پیٹ والے بچے کو کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہو۔
➎ نبی ان کا ہر قول و فعل امت مسلمہ کے لئے احسان، خیر اور رحمت ہی رحمت ہے۔
➏ غیر اقوام سے مفید اور معقول چیز میں اخذ کی جا سکتی ہیں۔
➐ اجتہاد کرنا جائز ہے بشرطیکہ واضح دلیل کے خلاف نہ ہو۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 90   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2011  
´مدت رضاعت میں بیوی سے جماع کرنے کا بیان۔`
جدامہ بنت وہب اسدیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں نے ارادہ کیا کہ بچہ کو دودھ پلانے والی بیوی سے جماع کرنے کو منع کر دوں، پھر میں نے دیکھا کہ فارس اور روم کے لوگ ایسا کر رہے ہیں، اور ان کی اولاد نہیں مرتی اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے «عزل» کے متعلق پوچھا گیا تھا، تو میں نے آپ کو فرماتے سنا: وہ تو «وأدخفی» (خفیہ طور زندہ گاڑ دینا) ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2011]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  دودھ پلانے کے ایام میں ہم بستری کرنے سے حمل ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ماں کا دودھ کم ہوجاتا ہے او ردودھ پیتا بچہ پورا دودھ نہ ملنے کی وجہ سے کمزور رہ جاتا ہے۔
 غیلہ کی صورت میں یہ اندیشہ موجود تو ہے، تاہم یقینی نہیں۔
دودھ کی کمی کا تدارک بھینس، گائے اور بکری وغیرہ کے دودھ سے ممکن ہے۔
ایسے حالات میں وقت سے پہلے دودھ چھڑانا نقصان دہ نہیں ہوگا، اس لیے اس سے اجتناب کرنا جائز تو ہے ضروری نہیں۔

(2)
  عزل کے بارے میں دیکھئے فوائد حدیث: 1926۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2011   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3882  
´رضاعت کے دوران عورت سے جماع کرنا کیسا ہے؟`
جدامہ اسدیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: میں نے قصد کر لیا تھا کہ «غیلہ» سے منع کر دوں پھر مجھے یاد آیا کہ روم اور فارس کے لوگ ایسا کرتے ہیں اور ان کی اولاد کو اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچتا۔‏‏‏‏ مالک کہتے ہیں: «غیلہ» یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی سے حالت رضاعت میں جماع کرے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3882]
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایامِ رضاعت میں بیوی سے ہم بستری کرنا جائز ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3882