سنن ابي داود
كِتَاب الْعِتْق -- کتاب: غلاموں کی آزادی سے متعلق احکام و مسائل
2. باب فِي بَيْعِ الْمُكَاتَبِ إِذَا فُسِخَتِ الْكِتَابَةُ
باب: عقد کتابت فسخ ہو جانے پر مکاتب غلام کو بیچنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3930
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: جَاءَتْ بَرِيرَةُ لِتَسْتَعِينَ فِي كِتَابَتِهَا، فَقَالَتْ: إِنِّي كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى تِسْعِ أَوَاقٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُوقِيَّةٌ، فَأَعِينِينِي، فَقَالَتْ: إِنْ أَحَبَّ أَهْلُكِ أَنْ أَعُدَّهَا عَدَّةً وَاحِدَةً وَأَعْتِقَكِ وَيَكُونَ وَلَاؤُكِ لِي فَعَلْتُ فَذَهَبَتْ إِلَى أَهْلِهَا وَسَاقَ الْحَدِيثَ نَحْوَ الزُّهْرِيِّ زَادَ فِي كَلَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِهِ مَا بَالُ رِجَالٍ يَقُولُ أَحَدُهُمْ: أَعْتِقْ يَا فُلَانُ وَالْوَلَاءُ لِي إِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے بدل کتابت میں تعاون کے لیے ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے لوگوں سے نو اوقیہ پر مکاتبت کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہے، لہٰذا آپ میری مدد کیجئے، تو انہوں نے کہا: اگر تمہارے لوگ چاہیں تو میں ایک ہی دفعہ انہیں دے دوں، اور تمہیں آزاد کر دوں البتہ تمہاری ولاء میری ہو گی ؛ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کے پاس گئیں پھر راوی پوری حدیث زہری والی روایت کی طرح بیان کی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے آخر میں یہ اضافہ کیا کہ: لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ دوسروں سے کہتے ہیں: تم آزاد کر دو اور ولاء میں لوں گا (کیسی لغو بات ہے) ولاء تو اس کا حق ہے جو آزاد کرے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (2233)، (تحفة الأشراف: 17296) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: بریرہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ سے باب کی مطابقت اس طرح ہے کہ: مکاتب غلام کو بیچنا جائز نہیں، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا: تو گویا مکاتبت کا معاملہ فسخ کر دیا گیا تب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بریرہ کو خریدا اور یہی مطابقت اگلی حدیث میں بھی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3930  
´عقد کتابت فسخ ہو جانے پر مکاتب غلام کو بیچنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے بدل کتابت میں تعاون کے لیے ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: میں نے اپنے لوگوں سے نو اوقیہ پر مکاتبت کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ ادا کرنا ہے، لہٰذا آپ میری مدد کیجئے، تو انہوں نے کہا: اگر تمہارے لوگ چاہیں تو میں ایک ہی دفعہ انہیں دے دوں، اور تمہیں آزاد کر دوں البتہ تمہاری ولاء میری ہو گی ؛ چنانچہ وہ اپنے لوگوں کے پاس گئیں پھر راوی پوری حدیث زہری والی روایت کی طرح بیان کی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے آخر میں یہ اضافہ کیا کہ: لوگوں کا کیا حال ہے کہ وہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3930]
فوائد ومسائل:
(1) غلام کو آزاد کرنے پر غلام اور اس کے مالک کے مابین جو ربط ونسبت قائم ہوتی ہے، اسے ولاء کہتے ہیں (واو کے فتحہ کے ساتھ) اور اس کی حیثیت شریعت میں نسب کی مانند ہوتی ہے۔
آزاد کرنے والے کو مولیٰ معتِق (تا کے کسرہ کے ساتھ۔
یعنی آزاد کرنے والا)
اور آزاد کیے جانے والے کو مولی معتَق کہتے ہیں۔
(تا کے فتحہ کے ساتھ آزاد کیے جانےوالا)۔
نیز وہ مال جو کوئی غلام یا آزاد کردہ غلام چھوڑ مرے وہ بھی ولاء ہی کہلاتا ہے۔

(2) اس موضوع کی احادیث میں حضرت عائشہ محض مکاتبت کی رقم ادا نہ کرنا چاہتی تھیں، بلکہ اسے خرید کر آزاد کرنا چاہتی تھیں۔
جیسے کہ مندرجہ احادیث میں آیا ہے۔
پہلی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے خرید لو اور آزاد کردو۔
اور دوسری حدیث میں ہے، میں یکمشت ادا کردوں۔
اس توضیح سے مکاتبت کا معاہدہ منسوخ شمار ہوگا۔

(3) وعظ ونصیحت کےلئے حکیمانہ اسلوب اختیار کرنا چاہئے، کسی کو برسرعام براہ راست خطاب کرکے ٹوکنا خلاف مصلحت ہوتا ہے۔

(4) سنت کے مطابق کیے جانے والے تمام اعمال کتاب اللہ میں سے ہیں۔
کیونکہ سنت قرآن کریم کی توضیح وتشریح ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا ہے اور جو کچھ رسول تمھیں دے دیں وہ لےلو اور جس سے روک دیں اور اس سے رک جاو۔
جس نے رسول اللہ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
اے ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو باطل مت کرو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3930