سنن ابي داود
كِتَاب الْعِتْق -- کتاب: غلاموں کی آزادی سے متعلق احکام و مسائل
3. باب فِي الْعِتْقِ عَلَى الشَّرْطِ
باب: شرط لگا کر غلام آزاد کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3932
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، قَالَ: كُنْتُ مَمْلُوكًا لِأُمِّ سَلَمَةَ، فَقَالَتْ:" أُعْتِقُكَ وَأَشْتَرِطُ عَلَيْكَ أَنْ تَخْدُمَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا عِشْتَ، فَقُلْتُ: وَإِنْ لَمْ تَشْتَرِطِي عَلَيَّ مَا فَارَقْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا عِشْتُ، فَأَعْتَقَتْنِي وَاشْتَرَطَتْ عَلَيَّ".
سفینہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا غلام تھا، وہ مجھ سے بولیں: میں تمہیں آزاد کرتی ہوں، اور شرط لگاتی ہوں کہ تم جب تک زندہ رہو گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہو گے، تو میں نے ان سے کہا: اگر آپ مجھ سے یہ شرط نہ بھی لگاتیں تو بھی میں جیتے جی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے جدا نہ ہوتا، پھر انہوں نے مجھے اسی شرط پر آزاد کر دیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/العتق 6 (2526)، (تحفة الأشراف: 4481)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/221) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1226  
´(آزادی کے متعلق احادیث)`
سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا غلام تھا، انہوں نے مجھے کہا کہ میں تجھے اس شرط پر آزاد کرتی ہوں کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاحیات خدمت بجا لاتا رہے۔ اسے احمد، ابوداؤد، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1226»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، العتق، باب في العتق علي الشرط، حديث:3932، والنسائي في الكبرٰي:3 /190، حديث:4995، وابن ماجه، العتق، حديث:2526، وأحمد:5 /221، 6 /319.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آزادی کا پروانہ مشروط طور پر بھی دینا جائز ہے اور غلام سے تاحیات کسی کی خدمت کی شرط لگانا بھی درست ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1226   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3932  
´شرط لگا کر غلام آزاد کرنے کا بیان۔`
سفینہ کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا غلام تھا، وہ مجھ سے بولیں: میں تمہیں آزاد کرتی ہوں، اور شرط لگاتی ہوں کہ تم جب تک زندہ رہو گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتے رہو گے، تو میں نے ان سے کہا: اگر آپ مجھ سے یہ شرط نہ بھی لگاتیں تو بھی میں جیتے جی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے جدا نہ ہوتا، پھر انہوں نے مجھے اسی شرط پر آزاد کر دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3932]
فوائد ومسائل:
غلام کو قابل عمل عمدہ شرط پر آزاد کرنا جائز ہے۔
اور کیا عمدہ شرط تھی جو ام المومنین سیدہ ام سلمہ نے کی اور حضرت سفینہ قبول کیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3932