سنن ابي داود
كِتَاب الْعِتْق -- کتاب: غلاموں کی آزادی سے متعلق احکام و مسائل
14. باب أَىِّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ
باب: کون سا غلام آزاد کرنا زیادہ بہتر ہے؟
حدیث نمبر: 3966
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السَّمْطِ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ عَبَسَةَ: حَدِّثْنَا حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مُؤْمِنَةً كَانَتْ فِدَاءَهُ مِنَ النَّارِ".
شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ انہوں نے عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ ہم سے کوئی ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے (براہ راست) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے کسی مسلمان گردن کو آزاد کیا تو وہ دوزخ سے اس کا فدیہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/فضائل الجھاد 9 (1634)، سنن النسائی/الجھاد 26 (3144)، (تحفة الأشراف: 10755)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/112، 386) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2522  
´غلام آزاد کرنے کا بیان۔`
شرحبیل بن سمط کہتے ہیں کہ میں نے کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: کعب بن مرہ! ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کریں، اور احتیاط سے کام لیں، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو شخص کسی مسلمان کو آزاد کرے گا تو وہ اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ ہو گا، اس کی ہر ہڈی اس کی ہر ہڈی کا فدیہ بنے گی، اور جو شخص دو مسلمان لونڈیوں کو آزاد کرے گا تو یہ دونوں اس کے لیے جہنم سے نجات کا ذریعہ بنیں گی، ان کی دو ہڈیاں اس کی ایک ہڈی کے برابر ہوں گی۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2522]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا اور مزید لکھا ہے کہ مذکورہ روایت کے بعض حصے کے شواہد صیحح مسلم (1509)
میں ہیں نیز مذکورہ روایت سنن ابی داؤد میں ہے وہاں ہمارے فاضل محقق اس کی بابت لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداً ضعیف ہے جبکہ سنن ابی داؤد کی حدیث (3952)
اس سے کفایت کرتی ہے۔
اس معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی مذکورہ کچھ نہ کچھ اصل ضرور ہے علاوہ ازیں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسےصیحح قرار دیا ہے دیکھیے: (الإرواء رقم: 1308)
نیز مسند احمد کے محققین نےبھی مذکورہ روایت کے بعض حصے کو صیحح قرار دیا ہے یعنی حدیث کے آخری جملے (وَمَنْ أَعْتَقَ امْرَأَتَيْنِ مُسْلِمَتَيْنِ كَانَتَا فِكَاكَهُ مِنْ النَّارِ يُجْزِئُ بِكُلِّ عَظْمَيْنِ مِنْهُمَا عَظْمٌ مِنْهُ)
کے علاوہ باقی رایت کو صیحح لغیرہ قراردیا ہے لہٰذا اس ساری بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ روایت کی کچھ اصل ضرورہے۔
مزید تفصیل دیکھیے: (الموسوعة الحدیثیة مسند الإمام أحمد: 29/ 600، 601)

(2)
حضرت شرحبیل ؓ کو رسول اللہﷺکی خدمت میں زیادہ عرصہ حاضر رہنے کا موقع نہیں ملا اس لیے انھوں نےدوسرے صحابی سے حدیث کاعلم حاصل کیا۔

(3)
صحابیں صحابیت کا شرف حاصل ہونے کےباوجود علم حاصل کرنے کے لیے شوق رکھتے اور اس کے لیے محنت کرتے تھے، مسلمانوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام ؓ کی اس مبارک عادت کی پیروی کرتےہوئے دین کاعلم حاصل کرنے میں کوتائی نہ کریں۔

(4)
غلام آزاد کرنا جہنم سےنجات کا باعث ہے۔

(5)
لونڈی کو آزاد کرنا بھی عظیم ثواب ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2522