سنن ابي داود
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
2. باب فِيمَا يُدْعَى لِمَنْ لَبِسَ ثَوْبًا جَدِيدًا
باب: نیا کپڑا پہننے والے کو دعا دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4024
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ الْجَرَّاحِ الْأَذَنِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِكِسْوَةٍ فِيهَا خَمِيصَةٌ صَغِيرَةٌ، فَقَالَ:" مَنْ تَرَوْنَ أَحَقُّ بِهَذِهِ؟ فَسَكَتَ الْقَوْمُ، فَقَالَ: ائْتُونِي بِأُمِّ خَالِدٍ فَأُتِيَ بِهَا، فَأَلْبَسَهَا إِيَّاهَا، ثُمَّ قَالَ: أَبْلِي وَأَخْلِقِي مَرَّتَيْنِ وَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى عَلَمٍ فِي الْخَمِيصَةِ أَحْمَرَ أَوْ أَصْفَرَ وَيَقُولُ: سَنَاهْ سَنَاهْ يَا أُمَّ خَالِدٍ وَسَنَاهْ فِي كَلَامِ الْحَبَشَةِ الْحَسَنُ".
ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی دھاری دار چادر تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ کس کو اس کا زیادہ حقدار سمجھتے ہو؟ تو لوگ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ چنانچہ وہ لائی گئیں، آپ نے انہیں اسے پہنا دیا پھر دوبار فرمایا: پہن پہن کر اسے پرانا اور بوسیدہ کرو آپ چادر کی دھاریوں کو جو سرخ یا زرد رنگ کی تھیں دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: اے ام خالد! «سناه سناه» اچھا ہے اچھا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجھاد 188 (3071)، المناقب 37 (3874)، اللباس 22 (5823)، الأدب 17 (5993)، (تحفة الأشراف: 15779)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/365) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سناہ حبشی زبان میں اچھا کے معنی میں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5993  
´دوسرے کے بچے کو چھوڑ دینا کہ وہ کھیلے اور اس کو بوسہ دینا یا اس سے ہنسنا`
«. . . عَنْ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَبِي وَعَلَيَّ قَمِيصٌ أَصْفَرُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَنَهْ سَنَهْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَهِيَ بِالْحَبَشِيَّةِ حَسَنَةٌ، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَلْعَبُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ فَزَبَرَنِي أَبِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهَا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي ثُمَّ أَبْلِي وَأَخْلِقِي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَقِيَتْ حَتَّى ذَكَرَ، يَعْنِي مِنْ بَقَائِهَا . . .»
. . . ام خالد بنت سعید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے والد کے ساتھ حاضر ہوئی۔ میں ایک زرد قمیص پہنے ہوئے تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سنہ سنہ عبداللہ بن مبارک نے کہا کہ یہ حبشی زبان میں اچھا کے معنی میں ہے۔ ام خالد نے بیان کیا کہ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم نبوت سے کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کھیلنے دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زمانہ تک زندہ رہو گی اللہ تعالیٰ تمہاری عمر خوب طویل کرے، تمہاری زندگی دراز ہو۔ عبداللہ نے بیان کیا چنانچہ انہوں نے بہت ہی طویل عمر پائی اور ان کی طول عمر کے چرچے ہونے لگے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ: 5993]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5993 کا باب: «بَابُ مَنْ تَرَكَ صَبِيَّةَ غَيْرِهِ حَتَّى تَلْعَبَ بِهِ أَوْ قَبَّلَهَا أَوْ مَازَحَهَا:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب کو امام بخاری رحمہ اللہ نے بچے کے کھیلنے اور اس کا بوسہ لینے اور ہنسنے پر قائم فرمایا، مگر تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا اس میں باب کے ایک جزء کے ساتھ مناسبت قائم نہیں ہوتی، امام بخاری رحمہ اللہ نے بوسہ دینے پر باب میں ذکر فرمایا ہے، مگر حدیث میں سرے سے ہی بوسہ کا ذکر موجود نہیں ہے، چنانچہ علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس فى الخبر المذكور فى الباب للتقبيل ذكر، والذي يظهر لي أن ذكر المزح بعد التقبيل من العام بعد الخاص، و أن الممازحة بالقول و الفعل مع الصغيرة إنما يقصد به التأنيس و التقبيل من جملة ذالك.» (1)
اسی حدیث منقول میں تقبیل کا ذکر نہیں ہے تو محتمل یہ ہے کہ جب اس بچی کو اپنے جسم مبارک کے چھونے سے روکا نہیں تو یہ تقبیل کی طرح ہوا، مجھے جو ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ تقبیل کے بعد ذکر مزاح عام بعد الخاص کی قبیل سے ہے کہ صغیرہ کے ساتھ قول و فعل کے ذریعہ ممازحت سے غرض اس کی تانیس ہوتی ہے، تقبیل (بوسہ لینا) ان جملہ امور میں سے ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بچی کے چھونے کو بوسہ لینے پر قیاس فرمایا ہو، چنانچہ علامہ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«جعل تمكين النبى صلى الله عليه وسلم لها من ذالك يتنزّل منزلة ابتدائه بتناولها لتعلب، و قاس قبلة الصغيرة على المماسة.» (2)
بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
غالب یہ ہے کہ بچی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتم سے کھیلا، اسی سے مزح اور کھیلنا ثابت ہوا، اور اسی طرح بچی کو بوسہ دینا بھی، جیسا کہ حدیث سے بھی ظاہر ہے۔ (3)
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«ليس فى حديث الباب للتقبيل ذكر فيحتمل أن يكون لما لم ينهها عن مس جسده صار كالتقبيل.» (4)
ترجمۃ الباب کے تحت جس حدیث کا ذکر ہے اس میں بوسے کا ذکر نہیں ہے، احتمال اس بات کا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے مبارک جسم کو ہاتھ لگانے سے منع نہیں فرمایا تو بس یہ بوسے کی طرح ہوا۔
یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے دراصل اس باب کے تحت صرف قیاس فرمایا ہے تقبیل کے لیے، لیکن بعد والے باب میں مکمل دلیل سے وضاحت فرما دی ہے جو کہ اس باب کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے بعد یہ باب قائم فرمایا: «باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته»، لہذا باب «من ترك صبية . . . . .» میں بوسے پر قیاس فرمایا اور بعد کے باب میں اس پر دلیل پیش کر دی۔ لہذا اس قسم کی عادات امام بخاری رحمہ اللہ کی معروف ہیں۔ اس حقیر نے امام بخاری رحمہ اللہ کی اس عادت کو انواع التراجم میں بھی شامل کیا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 174   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4024  
´نیا کپڑا پہننے والے کو دعا دینے کا بیان۔`
ام خالد بنت خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک چھوٹی سی دھاری دار چادر تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ کس کو اس کا زیادہ حقدار سمجھتے ہو؟ تو لوگ خاموش رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ چنانچہ وہ لائی گئیں، آپ نے انہیں اسے پہنا دیا پھر دوبار فرمایا: پہن پہن کر اسے پرانا اور بوسیدہ کرو آپ چادر کی دھاریوں کو جو سرخ یا زرد رنگ کی تھیں دیکھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: اے ام خالد! «سناه سناه» اچھا ہے اچھا ہے ۱؎۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4024]
فوائد ومسائل:
نیا کپڑا پہننے والے کو مذکورہ دعا دینا مسنون اور مستحب ہے، اس میں ضمنًا کپڑا پہننے والے کے لئے صحت وعافیت اور لمبی زندگی کی دعا ہے کہ وہ اس سے خوب استفادہ کرے حتی کہ وہ جائے۔
روایت میں مذکور صیغے مونث کے لئے ہیں۔
مذکر کے لئے یوں بھی کہے جا سکتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4024