سنن ابي داود
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
5. باب فِي لُبْسِ الشُّهْرَةِ
باب: شہرت کے کپڑوں کے پہننے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4031
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ ثَابِتٍ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي مُنِيبٍ الْجُرَشِيِّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8593)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/50، 92) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1269    
غیر مسلموں کی مشابہت سے بچو
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏من تشبه بقوم فهو منهم . ‏‏‏‏ اخرجه ابو داود وصححه ابن حبان.»
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہی سے ہے۔ اسے ابوداود نے روایت کیا اور ابن حبان نے صحیح کہا۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1269]

تخریج:
«حسن صحيح»
[ابوداود 4031]،
[ صحيح ابي داود 3401]
ابن تیمیہ نے الاقتضاء (ص39) میں فرمایا: اس کی سند جید ہے۔
عراقی نے تخریج الاحیاء [342/1] میں فرمایا اس کی سند صحیح ہے۔
حافظ نے فتح الباری (222/10) میں فرمایا اس کی سند حسن ہے۔
مفصل تخریج و تصحیح کے لیے دیکھیے حجاب المرءۃ المسلمۃ للالبانی [104] اور الا رواء [1269] تحفۃ الاشراف [275/6]

فوائد:
➊ جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ ان میں سے ہے معلوم ہوا کہ اگر کوئی مسلمان کفار کی خاص وضع قطع لباس حجامت وغیرہ میں مشابہت اختیار کرے تو وہ انہیں کا ساتھی ہے کیونکہ ان کی وضع قطع اختیار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسے مسلمانوں کی وضع قطع کی بجائے کفار کی وضع قطع پسند ہے جب کہ کفر کے طریقے کو پسند کرنا ایمان کے منافی ہے ہمیں تو کفار کی مخالفت کا حکم دیا گیا مثلاً ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «جزوا الشوارب وارخوا اللحي خالفوا المجوس» مونچھیں کترو اور داڑھیاں بڑھاؤ مجوس کی مخالفت کرو۔ [مسلم/222 ]
اس طرح زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «غيروا الشيب ولا تشبهوا باليهود» بالوں کی سفیدی کو بدل دو اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو۔ [صحيح الترمذي 1433 ]
جب بالوں کی سفیدی اور داڑھی اور مونچھوں کی وضع قطع تک میں مجوس و یہود کی مخالفت کو مدنظر رکھا گیا ہے تو کفار کی خاص رسوم جو ان کے علیحدہ مذہبی یا قومی تشخص کی علامت ہیں مسلمانوں کے لئے کس طرح جائز ہو سکتی ہیں۔
➋ ‏یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب کوئی آدمی کسی قوم کی مشابہت ظاہر میں اختیار کرتا ہے تو آہستہ آہستہ اس کا باطن بھی انہیں کے رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ اس لیے کفار سے مشابہت کو حرام قرار دیا گیا۔
➌ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ایک نہایت عمدہ اور نفیس کتاب لکھی ہے اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ اصحاب الجحیم اس میں قرآن و سنت اور آثار صحابہ سے ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں پر کفار کی مشابہت سے اجتناب اور ان کے طور طریقوں کی مخالفت فرض ہے اس کی تلخیص کا اردو ترجمہ مکتبہ سلفیہ لاہور نے راہ حق کے تقاضے کے نام سے شائع کیا ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 108   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1269  
´دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی نے دوسری قوم سے مشابہت کی پس وہ انہی میں سے ہے۔ اسے ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1269»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، اللباس، باب في لبس الشهرة، حديث:4031، وأحمد:2 /50، 92، وابن حبان.»
تشریح:
1. یہ حدیث تَشَبُّہ بِالْکُفَّار کی حرمت کی دلیل ہے۔
اسی سے علماء نے غیر مسلموں کا فیشن اپنانا مکروہ قرار دیا ہے۔
اس تشبیہ کا باب بڑا وسیع ہے۔
اس میں عبادات‘ عادات و اطوار‘ خور و نوش‘ ملبوسات‘ زیب و زینت‘ آداب و رسومات اور رجحان و میلان سب شامل ہیں۔
حدیث میں ان تمام چیزوں کی ممانعت ہے۔
اگر اس مقام پر تنگی داماں کا خوف نہ ہوتا تو ہم یہاں ان کی نصوص بالتفصیل بیان کرتے۔
علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب حجاب المرأۃ المسلمۃ کے صفحہ ۷۸تا ۱۰۹ طبع ثالث میں اس موضوع پر نہایت عمدہ بحث کی ہے۔
2. شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس حدیث کی بابت اپنی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں لکھتے ہیں کہ یہ حدیث کم از کم تشبیہ بالکفار کی حرمت کی متقاضی ہے، اگرچہ اس حدیث کا ظاہری مضمون تشبیہ بالکفار کی صورت میں کفر کا تقاضا کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہُ مِنْھُمْ﴾ (المآئدۃ ۵:۵۱) تم میں سے جو بھی انھیں دوست رکھے وہ یقینا انھی میں سے ہے۔
اور یہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے بیان کی نظیر ہے جس میں انھوں نے فرمایا کہ جس نے مشرکین کے علاقے میں گھر بنایا اور ان کے تہوار والے ایام‘ نیروز اور مہر جان منائے اور ان کے ساتھ مشابہت کرتا رہا حتیٰ کہ وفات پا گیا تو ایسے آدمی کا حشر قیامت کے روز انھی کے ساتھ ہوگا۔
کبھی اسے تشبہ مطلق پر محمول کیا جاتا ہے جو کفر کو واجب کر دیتا ہے اور تشبہ کے بعض پہلوؤں کی حرمت کا مقتضی ہے۔
اور کبھی اس شخص کا ان میں شمار ہونا صرف اتنی مشترک مقدار (قدرِمشترک) پر محمول ہوتا ہے جس میں وہ ان کی مشابہت کرے‘ چنانچہ اگر وہ (قدرِمشترک) کفر ہو یا معصیت‘ یا ان کا شعار ہو تو اس کا حکم بھی وہی ہوگا۔
بہرحال حرمت تشبیہ کی علت اور وجہ صرف اور صرف کفار کے ساتھ تشبیہ ہے‘ چنانچہ اگر تشبیہ ہوگی تو حرمت کا حکم لاگو ہوگا ورنہ نہیں۔
اور تشبہ عام ہے‘ اس کے عموم میں وہ شخص بھی شامل ہے جو کسی کام کو صرف اس وجہ سے کرے کہ کافروں نے اسے کیا ہے۔
اور یہ شاذ ونادر ہے۔
او روہ شخص بھی اس عموم میں شامل ہے جو کسی کام میں اپنے غیر کی پیروی اپنے مقصد و فائدے کے لیے کرتا ہے بشرطیکہ وہ کام اس کے غیر‘ یعنی کافروں کا ایجاد کردہ ہو۔
مگر جس نے کوئی کام کیا اور وہ اتفاقاً عمل غیر کے مشابہ ہو گیا اور دونوں نے ایک دوسرے سے کچھ اخذ نہیں کیا تو اس کا کفار کے ساتھ مشابہ ہونا محل نظر ہے۔
لیکن اس سے بھی منع کیا جاتا ہے تاکہ یہ ان کے ساتھ تشبیہ کا ذریعہ نہ بن جائے اور اس لیے بھی کہ اس میں کفار کی مخالفت ہے جیسا کہ ڈاڑھی کو رنگنے اور مونچھوں کو صاف کرنے کا حکم ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: بالوں کی سفیدی تبدیل کرو اور یہود سے مشابہت اختیار نہ کرو۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بالوں کو نہ رنگنے میں ان کے ساتھ مشابہت ہمارے ارادے اور عمل کے بغیر بھی ہو جاتی ہے اور یہ اتفاقی طور پر ان سے عملی موافقت کی بڑی واضح مثال ہے جو محض ہمارے جسم میں پیدا شدہ حالت کو تبدیل نہ کرنے کی بنا پر ہو جاتی ہے۔
پھر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس ممانعت کی انتہا اور نتیجہ اپنی قلبی بصیرت کی روشنی میں ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں ظاہر اور باطن میں بہت مضبوط ربط اور تعلق ہے اور تشبہ بالکفار‘ ان کے ساتھ دوستی اور باہمی مودت کا سبب بنتا ہے اور دین میں مداہنت و منافقت اختیار کرنے کا موجب ہے اور اس کی وجہ سے ان کے اخلاق اور خبیث عادات اپنے خسارے‘ تمام نقصانات اور غضب الٰہی کے موجبات کے ساتھ مسلمانوں کی صفوں میں سرایت کر جاتی ہیں اور یہ اس دور کی چشم دید حقیقت ہے جس کا ہم آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں اور کانوں سے سنتے ہیں۔
(اقتضاء الصراط المستقیم‘ ص:۱۱۶‘ طبع دارالکتاب العربي)
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1269   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4031  
´شہرت کے کپڑوں کے پہننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہیں میں سے ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4031]
فوائد ومسائل:

غیر مسلموں کا لباس، جو ان کا مذہبی اور قومی شعار ہو، مسلمانوں کے لئے اس کو اختیار کرنا حرام ہے۔
علاوہ ازیں دیگر مخصوص عادات کا بھی یہی حکم ہے۔
جس میں ان کی تہذیب وثقافت اور ان کی عیدوں اور تہواروں میں شراکت وغیر ہ سبھی شامل ہیں۔
امام ابن تیمہ رحمتہ اللہ کی معروف کتاب اقتصاء الصراط المستقیم اس موضوع میں ایک ممتاز اور قابل کتاب ہے۔
اس کتاب کا اردو میں بھی ترجمہ فکر وعقیدے کی گمراہیاں اور صراط مستقیم کے تقاضے کے نام سے دارالسلام کے زیر اہتمام چھپ چکا ہے۔

2: یہ حدیث اس بات پر واضح طور پر دلالت کرتی ہے، اہل ایمان اور اہل اسلام کسی بھی معاملے میں کافروں، مشرکوں، منافقوں اور بدعتی حضرات کی مشابہت نہ کریں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4031