سنن ابي داود
كِتَاب اللِّبَاسِ -- کتاب: لباس سے متعلق احکام و مسائل
24. باب فِي لِبْسَةِ الصَّمَّاءِ
باب: جسم پر اس طرح کپڑا لپیٹنا کہ دونوں ہاتھ اندر ہوں منع ہے۔
حدیث نمبر: 4080
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ لِبْسَتَيْنِ أَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ مُفْضِيًا بِفَرْجِهِ إِلَى السَّمَاءِ وَيَلْبَسُ ثَوْبَهُ وَأَحَدُ جَانِبَيْهِ خَارِجٌ وَيُلْقِي ثَوْبَهُ عَلَى عَاتِقِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا ہے ایک یہ کہ آدمی اس طرح گوٹ مار کر بیٹھے کہ اس کی شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی ہو اس پر کوئی کپڑا نہ ہو، دوسرے یہ کہ اپنا کپڑا سارے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ایک طرف کا حصہ کھلا ہو، اور کپڑا اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 12358)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/319، 380، 391) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 489  
´تجارت دھوکا دہی کا نام نہیں ہے`
«. . . عن ابى هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن الملامسة والمنابذة . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملامسہ اور منابذہ (دو قسم کے سودوں) سے منع فرمایا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 489]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5821، من حديث مالك به، ورواه مسلم 1511، من حديث ابي الزناد به مختصراً جداً]

تفقه: :
➊ ملامسہ اس سودے (بیع) کو کہتے ہیں کہ آدمی ایک کپڑا کو چھو کر خرید لے اور اسے کھول کر نہ دیکھے۔ اسی طرح اندھیرے میں اور دیکھے بغیر صرف ہاتھ لگا کر خریدے ہوئے سودے کو ملامسہ کہتے ہیں۔ چونکہ اس سودے میں ایک فریق کے نقصان کا اندیشہ ہے اس لئے یہ جائز نہیں ہے۔
➋ منابذہ اس سودے کو کہتے ہیں کہ دکاندار اپنا کپڑا (وغیرہ) گاہک کی طرف پھینک دے جسے وہ (گاہک) کھول کر نہ دیکھ سکے اور سودے کا پابند ہو جائے۔ ایسے سودے زمانہ جاہلیت میں رائج تھے جن میں ایک فریق کا نقصان ہو جاتا تھا لہٰذا اسلام نے ایسی دکانداری سے منع کر دیا ہے۔
➌ دین اسلام مکمل اور کامل دین ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں ہدایات موجود ہیں۔
➍ تجارت دھوکا دہی کا نام نہیں ہے بلکہ صداقت و امانت سے عبارت ہے۔
➎ اپنی بیوی اور زر خرید لونڈیوں کے علاوہ تمام لوگوں سے شرمگاہ کا چھپانا فرض ہے۔
➏ اسلام شرم و حیا کا خاص خیال رکھتا ہے اور یہی دین فطرت ہے۔
➐ نماز میں کندھا ننگا کرنا جائز نہیں ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 359، وصحيح مسلم 516، دارالسلام: 1151]
➑ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا جب آپ امیر المؤمنین تھے، آپ کے کندھوں کے درمیان کُرتے پر اوپر نیچے تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ [الموطأ النسخة الباكستانيه ص711، واللفظ له دوسرا نسخه 2/918 ح1771، وسنده صحيح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 99   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3560  
´ممنوع لباس کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا: «اشتمال صماء» سے اور ایک کپڑے میں «احتباء» سے، کہ شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی رہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3560]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(اشتمال الصماء)
اور (احتباء)
کی وضاحت گزشتہ حدیث کے ترجمہ اور فوائد میں ہو چکی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3560   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1758  
´بدن کو پورے طور پر کپڑا سے لپیٹ لینا اور چوتڑ کے بل کپڑا لپیٹ کر بیٹھنا دونوں منع ہے​۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو لباس سے منع فرمایا: ایک صماء، اور دوسرا یہ کہ کوئی شخص خود کو کپڑے میں اس طرح لپیٹ لے کہ اس کی شرمگاہ پر اس کپڑے کا کوئی حصہ نہ رہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1758]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اہل لغت کے نزدیک صماء یہ ہے کہ آدمی چادرسے جسم کو اس طرح لپیٹ لے کہ بوقت ضرورت ہاتھ بھی نہ نکال سکے،
فقہاء کے نزدیک صماء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے جسم پر ایک ہی چادرلپیٹے اوراس کا ایک کنارہ اٹھا کراپنے کندھے پرڈال لے جس سے اس کی شرم گاہ کھل جائے،
اور احتباء یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دونوں پاؤں کو کھڑا کرکے چوتڑ کے بل بیٹھ جائے اور اوپر سے کپڑا اس طرح لپیٹے کہ شرم گاہ پر کچھ نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1758   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4080  
´جسم پر اس طرح کپڑا لپیٹنا کہ دونوں ہاتھ اندر ہوں منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قسم کے لباس سے منع فرمایا ہے ایک یہ کہ آدمی اس طرح گوٹ مار کر بیٹھے کہ اس کی شرمگاہ آسمان کی طرف کھلی ہو اس پر کوئی کپڑا نہ ہو، دوسرے یہ کہ اپنا کپڑا سارے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ ایک طرف کا حصہ کھلا ہو، اور کپڑا اٹھا کر کندھے پر ڈال لیا ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب اللباس /حدیث: 4080]
فوائد ومسائل:
ان صورتوں کے ناجائزاور حرام ہونےکی وجہ سے عریانی ہے، دوسری صورت کی ایک توجیہ ہوسکتی ہے کہ بعض اوقات متکبرقسم کے لوگ اپنی چادروں کے کنارے اپنے کندھوں پر ڈال کر اترتے ہوئے چلتے ہیں تو ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4080