سنن ابي داود
كِتَاب الْخَاتَمِ -- کتاب: انگوٹھیوں سے متعلق احکام و مسائل
6. باب مَا جَاءَ فِي الْجَلاَجِلِ
باب: پیروں میں گھونگھرو پہننا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 4231
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ بُنَانَةَ مَوْلَاةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَّانَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: بَيْنَمَا هِيَ عِنْدَهَا إِذْ دُخِلَ عَلَيْهَا بِجَارِيَةٍ وَعَلَيْهَا جَلَاجِلُ يُصَوِّتْنَ، فَقَالَتْ: لَا تُدْخِلْنَهَا عَلَيَّ إِلَّا أَنْ تَقْطَعُوا جَلَاجِلَهَا، وَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ جَرَسٌ".
عبدالرحمٰن بن حسان کی لونڈی بنانہ کہتی ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھیں کہ اسی دوران ایک لڑکی آپ کے پاس آئی، اس کے پاؤں میں گھونگھرو بج رہے تھے تو آپ نے کہا: اسے میرے پاس نہ آنے دو جب تک تم انہیں کاٹ نہ دو، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں گھنٹی ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 17852)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/242، 243) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4231  
´پیروں میں گھونگھرو پہننا کیسا ہے؟`
عبدالرحمٰن بن حسان کی لونڈی بنانہ کہتی ہیں کہ وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھیں کہ اسی دوران ایک لڑکی آپ کے پاس آئی، اس کے پاؤں میں گھونگھرو بج رہے تھے تو آپ نے کہا: اسے میرے پاس نہ آنے دو جب تک تم انہیں کاٹ نہ دو، اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں گھنٹی ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4231]
فوائد ومسائل:
چھوٹے بچوں سے لاڈ پیار ایک فطری تقاضا ہے اور شرعی حق بھی، مگر شرعی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھنا فرض ہے۔
اور گھنٹی والے زیورات سے بچنا چاہیئے، حتی کہ جانوروں کی گردنوں اور پاؤں میں بھی گھنٹیاں نہیں ہونی چاہیئں۔
یہ دونوں روایات اگرچہ سندََا ضعیف ہیں۔
تاہم گھنگرو وغیرہ کا استعمال دیگر صحیح روایات کی رُو سے ممنوع ہے، اسی لیئے بعض حضرات نے حدیث 4231 کی تحسین بھی کی ہے، کیونکہ نفس مسئلہ ثابت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4231