سنن ابي داود
كِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ -- کتاب: فتنوں اور جنگوں کا بیان
1. باب ذِكْرِ الْفِتَنِ وَدَلاَئِلِهَا
باب: فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 4244
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ نَصْرِ بْنِ عَاصِمٍ، عَنْ سُبَيْعِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: أَتَيْتُ الْكُوفَةَ فِي زَمَنِ فُتِحَتْ تُسْتَرُ أَجْلُبُ مِنْهَا بِغَالًا، فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَإِذَا صَدْعٌ مِنَ الرِّجَالِ وَإِذَا رَجُلٌ جَالِسٌ تَعْرِفُ إِذَا رَأَيْتَهُ أَنَّهُ مِنْ رِجَالِ أَهْلِ الْحِجَازِ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَتَجَهَّمَنِي الْقَوْمُ، وَقَالُوا: أَمَا تَعْرِفُ هَذَا؟ هَذَا حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: إِنَّ النَّاسَ كَانُوا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ، فَأَحْدَقَهُ الْقَوْمُ بِأَبْصَارِهِمْ، فَقَالَ: إِنِّي قَدْ أَرَى الَّذِي تُنْكِرُونَ، إِنِّي قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ هَذَا الْخَيْرَ الَّذِي أَعْطَانَا اللَّهُ أَيَكُونُ بَعْدَهُ شَرٌّ كَمَا كَانَ قَبْلَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: فَمَا الْعِصْمَةُ مِنْ ذَلِكَ؟ قَالَ: السَّيْفُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ثُمَّ مَاذَا يَكُونُ، قَالَ: إِنْ كَانَ لِلَّهِ خَلِيفَةٌ فِي الْأَرْضِ، فَضَرَبَ ظَهْرَكَ وَأَخَذَ مَالَكَ فَأَطِعْهُ وَإِلَّا فَمُتْ وَأَنْتَ عَاضٌّ بِجِذْلِ شَجَرَةٍ، قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ يَخْرُجُ الدَّجَّالُ مَعَهُ نَهْرٌ وَنَارٌ فَمَنْ وَقَعَ فِي نَارِهِ وَجَبَ أَجْرُهُ وَحُطَّ وِزْرُهُ، وَمَنْ وَقَعَ فِي نَهْرِهِ وَجَبَ وِزْرُهُ وَحُطَّ أَجْرُهُ، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ثُمَّ هِيَ قِيَامُ السَّاعَةِ".
سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد و قامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حذیفہ نے کہا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، تو لوگ انہیں غور سے دیکھنے لگے، انہوں نے کہا: جس پر تمہیں تعجب ہو رہا ہے وہ میں سمجھ رہا ہوں، پھر وہ کہنے لگے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے کہ اس خیر کے بعد جسے اللہ نے ہمیں عطا کیا ہے کیا شر بھی ہو گا جیسے پہلے تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں نے عرض کیا: پھر اس سے بچاؤ کی کیا صورت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تلوار ۱؎ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ کی طرف سے کوئی خلیفہ (حاکم) زمین پر ہو پھر وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑے لگائے، اور تمہارا مال لوٹ لے جب بھی تم اس کی اطاعت کرو ورنہ تم درخت کی جڑ چبا چبا کر مر جاؤ ۲؎ میں نے عرض کیا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر دجال ظاہر ہو گا، اس کے ساتھ نہر بھی ہو گی اور آگ بھی جو اس کی آگ میں داخل ہو گیا تو اس کا اجر ثابت ہو گیا، اور اس کے گناہ معاف ہو گئے، اور جو اس کی (اطاعت کر کے) نہر میں داخل ہو گیا تو اس کا گناہ واجب ہو گیا، اور اس کا اجر ختم ہو گیا میں نے عرض کیا: پھر کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر قیامت قائم ہو گی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3332)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المناقب 25 (3606)، صحیح مسلم/الإمارة 13 (1847)، سنن ابن ماجہ/الفتن 13 (2981)، مسند احمد (5/386، 403، 404، 406) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی ایسے فتنہ پردازوں کو قتل کر دینا ہی اس کا علاج ہو گا۔
۲؎: یعنی ایسے بے دینوں کی صحبت چھوڑ کر جنگل میں رہنا منظور کر لو اور فقر وفاقہ میں زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہو جاؤ۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3979  
´(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3979]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیﷺ کے بعد ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں جو باطل کی طرف دعوت دینے والے تھے اور عام لوگ ان کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر ان کی بات مان لیتے تھے۔

(2)
خارجی معتزلہ شیعہ اور جہیمیہ وغیرہ فرقے صحابہ وتابعین کے دور میں پیدا ہوئے۔
صحابہ و تابعین نے ان کی تردید کی اور ان کے شبہات کا ازالہ کیا۔

(3)
اختلافات کے اس دور میں صحیح راستہ وہی تھا جس پر صحابہ کرام اور تابعین قائم تھے۔
بعد میں پيدا ہونے والے اختلافات میں بھی صحابہ وتابعین کا طرز عمل ہی قابل اتباع ہے۔

(4)
جماعت المسلمین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو ان فرقوں سے الگ ہیں مثلاً:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک فرقہ ان کی محبت میں غلو کا شکار ہوا جیسے:
کیسانیہ اور دوسرے شیعہ فرقے۔
ایک فرقہ ان کی مخالفت میں حد سے بڑھ گیا مثلاً:
خارجی اور ناصبی۔
عام مسلمانوں ان دونوں سے الگ رہے انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخلیفہ راشد تسلیم کیا لیکن انھیں معصوم نہیں مانا ان کے لیے الله کے نور میں سے نور ہونے کا عقیدہ نہیں رکھا۔
یہی عام مسلمانوں جماعت المسلمین (مسلمانوں کی جماعت)
ہیں۔
علاوہ ازیں خروج و بغاوت کے زمانے میں خلیفہ وقت کے ساتھ رہنا بھی اسی کے مفہوم میں شامل ہے۔

(5)
مسلمانوں کے امام سے مراد وہ حکمران اور خلیفہ ہے جو اسلامی شریعت کی روشنی میں ان کے معاملات کا انتظام کرتا اور دوسرے فرائض انجام دیتا ہے مثلاً:
اسلامی سلطنت کی سر زمین کی حفاظت دشمن ملکوں کے خلاف جہاد زکاۃ وغیرہ کی وصولی اور تقسیم بیت المال کا دوسرا انتظام مجرموں کی گرفتاری اور سزا، مسلمانوں کے جھگڑوں میں فیصلے کرنا اور اس مقصد کے لیے قاضی او جج مقرر کرنا وغیرہ۔

(6)
بعض لوگوں نے مسلمانوں کی جماعت کا مصداق ایک خودساختہ جماعت کو قراردینے کی کوشش کی ہےحالانکہ جماعۃ المسلمین کا لفظ اسم علم کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔
ورنہ نہ اِمَامَهم (ان کے امام)
کے بجائےاِمَامَها (اس جماعت کا امام)
فرمایا جاتا۔
جو امام مسلمانوں کا دفاع نہیں کرسکتا اور ان پر اسلامی شریعت نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کے ساتھ پیوستگی کا حکم ناقابل فہم ہے۔

(7)
فتنوں کے زمانے میں کسی پارٹی کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچانا جائز نہیں البتہ خلیفۃ المسلمین کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف جنگ کرنا اسلامی سلطنت کے دفاع اور قوت کے لیے ضروری ہے۔

(8)
دور حاضر میں مختلف مذہبی تنظیمیں صرف تعاون علي البر کی بنیاد پر قائم ہیں۔
ان کے ساتھ وابستگی یا عدم وابستگی کا تعلق اسلام کے بنیادی احکام سے نہیں۔
ان میں سی کسی ایک جماعت یا بیک وقت متعدد جماعتوں سے تعاون درست ہے جب تک وہ کوئی غلط کام نہ کریں۔
جو کام غلط ہو اس میں تعاون جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3979   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4244  
´فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔`
سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد و قامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حذیفہ نے کہا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، تو ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4244]
فوائد ومسائل:
1) اللہ عزوجل کی عجیب حکمت ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں مختلف میلانات پیدا فرما دیتا ہے جس میں ان کے لیئے خیر اور برکت ہوتی ہے۔
عام صحابہ خیر کے متعلق سوال کرتے تھے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ شر کے متعلق دریافت کرتے تھے اس سے ان کے علاوہ اُمت کو بھی بہت فائدہ ہو ا۔

2) رسول اللہﷺ حالات کے مطابق ہر ایک کواسکے مناسبِ حال جواب ارشاد فرماتے تھے۔

3) جس شخص کو جس چیز کی رغبت ہو تی ہے وہ اس میں دوسروں سے فائق ہو جاتا ہے۔
چناچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول ا للہ ﷺ کے رازدان اور آیندہ کے بہت سے امور سے آگاہ تھے۔

4) فتنے میں تحفظ کے لیئے تلوار کا استعمال اسی صورت میں ہوگا جب خلیفۃ المسلمین یا مومن مخلص قائد جہاد کرے گا۔
اس صورت میں اہلِ ایمان پر لازم ہو گا کہ اسکا ساتھ دیں۔

5) اگر زمین میں مسلمان خلیفہ نہ ہو تو اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لیئے جنگل میں اکیلے پڑے رہنا اور فتنہ پردازوں سے الگ رہنا واجب ہو گا خواہ کسی قدر مشقت آئے۔

6) دجال کی ظاہری آسائشیں درحقیقت ہلاکت ہون گی اور ظاہری ہلاکت آفرینیاں اہلِ ایمان کے لیئے باعثِ نجات ہونگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4244