سنن ابي داود
كِتَاب الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ -- کتاب: فتنوں اور جنگوں کا بیان
2. باب فِي النَّهْىِ عَنِ السَّعْىِ، فِي الْفِتْنَةِ
باب: فتنہ و فساد پھیلانا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4261
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ، عَنْ الْمُشَعَّثِ بْنِ طَرِيفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَسَعْدَيْكَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ قَالَ فِيهِ: كَيْفَ أَنْتَ إِذَا أَصَابَ النَّاسَ مَوْتٌ يَكُونُ الْبَيْتُ فِيهِ بِالْوَصِيفِ يَعْنِي الْقَبْرَ، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، أَوْ قَالَ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ: عَلَيْكَ بِالصَّبْرِ، أَوْ قَالَ تَصْبِرُ، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا أَبَا ذَرٍّ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: كَيْفَ أَنْتَ إِذَا رَأَيْتَ أَحْجَارَ الزَّيْتِ قَدْ غَرِقَتْ بِالدَّمِ، قُلْتُ: مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ: عَلَيْكَ بِمَنْ أَنْتَ مِنْهُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا آخُذُ سَيْفِي وَأَضَعُهُ عَلَى عَاتِقِي، قَالَ: شَارَكْتَ الْقَوْمَ إِذَنْ، قُلْتُ: فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: تَلْزَمُ بَيْتَكَ، قُلْتُ: فَإِنْ دُخِلَ عَلَيَّ بَيْتِي، قَالَ: فَإِنْ خَشِيتَ أَنْ يَبْهَرَكَ شُعَاعُ السَّيْفِ فَأَلْقِ ثَوْبَكَ عَلَى وَجْهِكَ يَبُوءُ بِإِثْمِكَ وَإِثْمِهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: لَمْ يَذْكُرِ الْمُشَعَّثَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ.
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! میں نے عرض کیا: تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں، اللہ کے رسول! پھر انہوں نے حدیث ذکر کی اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! اس دن تمہارا کیا حال ہو گا؟ جب مدینہ میں اتنی موتیں ہوں گی کہ گھر یعنی قبر ایک غلام کے بدلہ میں ملے گا؟ ۱؎ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو خوب معلوم ہے، یا کہا: اللہ اور اس کے رسول میرے لیے ایسے موقع پر کیا پسند فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: صبر کو لازم پکڑنا یا فرمایا: صبر کرنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ارشاد فرمائیں تعمیل حکم کے لیے حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا حال ہو گا جب تم احجار الزیت ۲؎ کو خون میں ڈوبا ہوا دیکھو گے میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کے رسول میرے لیے پسند فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس جگہ کو لازم پکڑنا جہاں کے تم ہو ۳؎، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اپنی تلوار لے کر اسے اپنے کندھے پر نہ رکھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب تو تم ان کے شریک بن جاؤ گے میں نے عرض کیا: پھر آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے گھر کو لازم پکڑنا میں نے عرض کیا: اگر کوئی میرے گھر میں گھس آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ تلواروں کی چمک تمہاری نگاہیں خیرہ کر دے گی تو تم اپنا کپڑا اپنے چہرے پر ڈال لینا (اور قتل ہو جانا) وہ تمہارا اور اپنا دونوں کا گناہ سمیٹ لے گا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الفتن 10 (3958)، (تحفة الأشراف: 11947)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/149، 163)، وأعادہ المؤلف فی الحدود (4409) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی ایک قبر کی جگہ کے لئے ایک غلام دینا پڑے گا یا ایک قبر کھودنے کے لئے ایک غلام کی قیمت ادا کرنی پڑے گی یا گھر اتنے خالی ہو جائیں گے کہ ہر ہر غلام کو ایک ایک گھر مل جائے گا۔
۲؎: مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے۔
۳؎: یعنی اپنے گھر میں بیٹھے رہنا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3958  
´فتنے کے وقت تحقیق کرنے اور حق پر جمے رہنے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جس وقت لوگوں پر موت کی وبا آئے گی یہاں تک کہ ایک گھر یعنی قبر کی قیمت ایک غلام کے برابر ہو گی ۱؎، میں نے عرض کیا: جو اللہ اور اس کا رسول میرے لیے پسند فرمائیں (یا یوں کہا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت تم صبر سے کام لینا، پھر فرمایا: اس وقت تم کیا کرو گے جب لوگ قحط اور بھوک کی مصیبت سے دو چار ہوں گے، حتیٰ کہ تم اپنی مسجد میں آؤ گے، پھر تم میں اپنے بستر تک جانے کی قوت ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3958]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشکل حالات میں صبر بہترین طرز عمل ہے۔

(2)
قحط اور بھوک کے زمانے میں چوری ڈاکے سے پرہیز کرنا بہت بہادری کا کام ہے۔

(3)
قتل وغارت کے زمانے میں جب عام لوگ حق وباطل کی پہچان چھوڑ کر محض فساد پھیلانے کے لیے حق کی حمایت کا بہانہ بناکر قتل وغارت کرنے لگیں تو تمام فریقوں سے الگ تھلگ رہنا بہتر ہے۔

(4)
عام فساد کے زمانے میں کسی ایک فسادی کو قتل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ غلط فہمیاں دور کرنے اور امن قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

(5)
اس قسم کے حالات میں جب مسلمان باہم دست وگریباں ہوں، سب سے کنارہ کش ہوکر بیٹھنا بہتر ہے اگر اس حالت میں بھی کوئی فسادی ایسے امن پسند شہری کو قتل کردے تو وہ شہید ہے۔

(6)
قبر کی قیمت غلام کے برابر ہوجائے گی کا مطلب ہے اس کثرت سے موتیں ہوں گی کہ دو گز زمین کا ملنا مشکل ہوجائےگا اور قبر کے لیے اتنی سی جگہ ایک گھر کی قیمت کے برابر ہوجائے گی یا قبر کھودنے والے اتنے کمیاب ہوجائیں گے کہ ان کی اجرت ایک گھر کی قیمت کے برابر ہوجائے گی۔
ایک مفہوم یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ کثرت اموات کے باعث گھر رہنے والوں سے خالی ہوجائیں گے اوران کی قیمتیں اتنی گرجائیں گی کہ ایک غلام کی قیمت کے برابر ہوجائیں گی جب کہ عام حالات میں مکان کی قیمت ایک غلام کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3958   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4409  
´کفن چور کے ہاتھ کاٹنے کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوذر! میں نے کہا: حاضر ہوں، اور حکم بجا لانے کے لیے تیار ہوں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب لوگوں کو موت پہنچے گی اور گھر یعنی قبر ایک خادم کے بدلہ میں خریدی جائیگی؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، یا جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صبر کو لازم پکڑنا یا فرمایا: اس دن صبر کرنا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: حماد بن ابی سلیمان کہتے ہیں: کفن چور کا ہاتھ کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4409]
فوائد ومسائل:
1) فی الواقع اب شہری گنجان آبادیوں میں میت کے لئے قبر کا حصول غریب آدمی کے بس سے باہر ہو رہا ہے اور ایام فتن میں یہ مسئلہ اوربھی سنگین ہوجائے گا اور یہ پیش گویاں رسول اللہﷺ کی صداقت اور رسالت کی دلیل ہیں۔

2) کفن چور کی حد اس کا ہاتھ کاٹنا ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ نے قبر کےلیے گھر کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4409