سنن ابي داود
كِتَاب الْمَلَاحِمِ -- کتاب: اہم معرکوں کا بیان جو امت میں ہونے والے ہیں
17. باب الأَمْرِ وَالنَّهْىِ
باب: امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4340
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ،وَعَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ رَأَى مُنْكَرًا فَاسْتَطَاعَ أَنْ يُغَيِّرَهُ بِيَدِهِ فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، وَقَطَعَ هَنَّادٌ بَقِيَّةَ الْحَدِيثِ وَفَّاهُ ابْنُ الْعَلَاءِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ بِلِسَانِهِ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو کوئی منکر دیکھے، اور اپنے ہاتھ سے اسے روک سکتا ہو تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر وہ ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اپنی زبان سے بھی نہ روک سکے تو اپنے دل میں اسے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم:(1140)، (تحفة الأشراف: 4085) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1140  
´عید کے دن خطبہ دینے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مروان عید کے روز منبر لے کر گئے اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا تو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: مروان! آپ نے خلاف سنت کام کیا ہے، ایک تو آپ عید کے روز منبر لے کر گئے حالانکہ اس دن منبر نہیں لے جایا جاتا تھا، دوسرے آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: فلاں بن فلاں ہے اس پر انہوں نے کہا: اس شخص نے اپنا حق ادا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو تم میں سے کوئی منکر دیکھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مٹا سکے تو اپنے ہاتھ سے مٹائے اور اگر ہاتھ سے نہ ہو سکے تو اپنی زبان سے مٹائے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اسے برا جانے اور یہ ایمان کا ادنی درجہ ہے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1140]
1140۔ اردو حاشیہ:
➊ صحیح بخاری میں ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی مروان کو عید سے پہلے خطبہ دینے سے منع کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث: 956]
اور اس روایت میں انکار کرنے والے کا نام عمار بن رویبہ یا ابومسعود رضی اللہ عنہ ہے۔ [عون المعبود]
➋ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی مخالفت ازحد گراں گزرتی تھی۔
➌ دل سے بُرا جانے کا مفہوم یہ ہے کہ عزم رکھے کہ جب بھی موقع ملا اس برائی کو ختم کر کے رہوں گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1140   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4340  
´امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو کوئی منکر دیکھے، اور اپنے ہاتھ سے اسے روک سکتا ہو تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے روک دے، اگر وہ ہاتھ سے نہ روک سکے تو اپنی زبان سے روکے، اور اگر اپنی زبان سے بھی نہ روک سکے تو اپنے دل میں اسے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4340]
فوائد ومسائل:
گھرانے اور خاندان کے بڑے، علاقے اور شہر کے حاکم، اور ایک مملکت میں حاکمِ اعلیٰ کو یہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں کہ وہ اپنے زیرِ اثر حلقے میں پائی جانی والی برائیوں کا بزورِ قوت قلعہ قمع کرے۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
اور علماء اور دیگر اہلِ نظر پر واجب ہے کہ برائی کا برائی ہونا واضح کریں اور اس کے برے انجام سے ڈرائیں۔
اور جو یہ کام بھی نہ کر سکیں تو کم از کم دل سے تو ضرور برا جانیں۔
ورنہ اس کے بعد ایمان کا کوئی ذرہ باقی نہیں رہتا۔
خیا ل رہے کہ دل سے بر ا جاننے کا مفہوم یہ ہے کہ ان لوگوں کے دل میں عزم موجود ہو کہ اگر آج نہیں تو کل کلاں جب بھی موقع ملا اس برائی کو اکھیڑ کر دم لیں گے۔
۔
۔
۔
۔
اور اللہ تعالیٰ دلوں کے بھید خوب جانتا ہے اور وہی توفیق دینے والا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4340   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1275  
´عیدین کی نماز کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (گورنر) مروان عید کے دن (عید گاہ) منبر لے گئے، اور نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا، ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: مروان! آپ نے خلاف سنت عمل کیا، عید کے دن منبر لے آئے، جب کہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا، اور آپ نے نماز سے پہلے خطبہ شروع کر دیا جب کہ نماز سے پہلے خطبہ نہیں ہوتا تھا، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص خلاف شرع کام ہوتے ہوئے دیکھے اور اپنے ہاتھ سے اسے بدلنے کی طاقت رکھتا ہو تو چاہیئے کہ اسے اپنے ہاتھ سے بد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1275]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عید گاہ میں منبر لے جانا یا منبر بنا لینا درست نہیں۔

(2)
عید کی نماز خطبے سے پہلے ہوتی تھی۔

(2)
لوگوں کی کوتاہی کی وجہ سے اگر ایک غلطی رواج پا جائے۔
تو اس کو ختم کرنے کےلئے خلاف سنت طریقہ اختیار کرنا درست نہیں۔
کیونکہ وہ ایک اور غلطی ہوگی۔
عوام کا عید کی نماز پڑھ کر خطبہ سنے بغیر چلے جانا غلطی ہے۔
اس پر توجہ دلانا اور اس سے روکنا ضروری ہے۔
تاہم اس کا علاج یہ نہیں کہ خطبہ عید کی نماز سے پہلے دے دیا جائے۔

(4)
حاکم کی غلطی پر عوام کو تنبیہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
بشرط یہ کہ کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تاہم علماء کو چاہیے کہ صحیح بات کا پرچار کریں۔
تاکہ اس پر عمل کرنے کےلئے مناسب حالات پیدا ہوسکیں۔
اورغلط کام چھوڑنے کے لئے عوام کی حوصلہ افزائی ہو۔

(5)
اچھے کام پر سب کے سامنے تعریف کرنا درست ہے۔
جب کہ مقصد اچھا کام کرنے والے کی تایئد اور نیکی پر اسکی حوصلہ افزائی ہو۔

(6)
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔
اس سے اس کی تایئد اور حوصلہ افزائی مقصود ہے۔
سامعین میں سے بعض لوگوں نے اس شخص کی بات کونا مناسب تصور کیا ہوگا یا یہ سمجھا ہوگا کہ یہ بات تو صحیح ہے۔
لیکن اس موقع پر نہیں کہنی چاہیے تھی۔
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس غلط فہمی کا ازالہ کر دیا۔

(7)
غلطی کی اصلاح اور قوت سے برائی کوختم کردینا حکام کا فرض ہے۔
یا جس شخص پر اختیار حاصل ہو اسے بزور قوت روکا جا سکتا ہے۔
مثلاً، غلام،   ماتحت، اولاد اور شاگرد وغیرہ ورنہ زبان سے روکنا کافی ہے۔

(8)
زبان سے منع کرنا علماء کا فریضہ ہے۔
اورعوام کو بھی اپنے دائرہ اختیار میں اس طریقے پر عمل کرنا چاہیے۔

(9)
اگر کوئی شخص ایمان کی کمزوری یا جراءت وہمت نہ ہونے کی وجہ سے زبان سے بھی بُرائی کی شناعت واضح نہ کرسکے تو بھی دل میں گناہ سے نفرت بہرحال ضروری ہے۔
گناہ کو اچھا سمجھنا پسند کرنا یا منع کرنے والوں کو اچھا نہ سمجھنا ایک لحاظ سے گناہ میں شرکت ہے جو ایک مومن کے شایان شان نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1275   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2172  
´ہاتھ، زبان یا دل سے منکر (بری باتوں) کو روکنے کا بیان۔`
طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے (عید کے دن) خطبہ کو صلاۃ پر مقدم کرنے والے مروان تھے، ایک آدمی نے کھڑے ہو کر مروان سے کہا: آپ نے سنت کی مخالفت کی ہے، مروان نے کہا: اے فلاں! چھوڑ دی گئی وہ سنت جسے تم ڈھونڈتے ہو (یہ سن کر) ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے کہا: اس شخص نے اپنا فرض پورا کر دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جو شخص کوئی برائی دیکھے تو چاہیئے کہ اس برائی کو اپنے ہاتھ سے بدل دے، جسے اتنی طاقت نہ ہو وہ اپنی زبان سے اسے بدل دے اور جسے اس کی طاقت بھی نہ ہو وہ اپنے دل میں اسے برا جانے ۱؎ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2172]
اردو حاشہ:
وضاحت:
 
1؎:
یعنی:
خود اس برائی سے الگ ہوجائے،
اس کے ارتکاب کرنے والوں کی جماعت سے نکل جائے (اگر ممکن ہو)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2172