سنن ابي داود
كِتَاب الْحُدُودِ -- کتاب: حدود اور تعزیرات کا بیان
1. باب الْحُكْمِ فِيمَنِ ارْتَدَّ
باب: مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 4354
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ، قَالَ:قَالَ أَبُو مُوسَى: أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنَ الْأَشْعَرِيِّينَ، أَحَدُهُمَا عَنْ يَمِينِي وَالْآخَرُ عَنْ يَسَارِي فَكِلَاهُمَا سَأَلَ الْعَمَلَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتٌ فَقَالَ:" مَا تَقُولُ يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، قُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا أَطْلَعَانِي عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمَا وَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى سِوَاكِهِ تَحْتَ شَفَتِهِ قَلَصَتْ، قَالَ: لَنْ نَسْتَعْمِلَ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ وَلَكِنْ اذْهَبْ أَنْتَ يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ فَبَعَثَهُ عَلَى الْيَمَنِ ثُمَّ أَتْبَعَهُ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ عَلَيْهِ مُعَاذٌ قَالَ: انْزِلْ وَأَلْقَى لَهُ وِسَادَةً وَإِذَا رَجُلٌ عِنْدَهُ مُوثَقٌ قَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ: هَذَا كَانَ يَهُودِيًّا فَأَسْلَمَ ثُمَّ رَاجَعَ دِينَهُ دِينَ السُّوءِ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: اجْلِسْ نَعَمْ، قَالَ: لَا أَجْلِسُ حَتَّى يُقْتَلَ قَضَاءُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَأَمَرَ بِهِ، فَقُتِلَ ثُمَّ تَذَاكَرَا قِيَامَ اللَّيْلِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ أَمَّا أَنَا فَأَنَامُ وَأَقُومُ أَوْ أَقُومُ وَأَنَامُ وَأَرْجُو فِي نَوْمَتِي مَا أَرْجُو فِي قَوْمَتِي".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو شخص تھے، ایک میرے دائیں طرف تھا دوسرا بائیں طرف، تو دونوں نے آپ سے عامل کا عہدہ طلب کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر فرمایا: ابوموسیٰ! یا فرمایا: عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، ان دونوں نے مجھے اس چیز سے آگاہ نہیں کیا تھا جو ان کے دل میں تھا، اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ سے عامل بنائے جانے کا مطالبہ کریں گے، گویا میں اس وقت آپ کی مسواک کو دیکھ رہا ہوں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسوڑھے کے نیچے تھی اور مسوڑھا اس کی وجہ سے اوپر اٹھا ہوا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم اپنے کام پر اس شخص کو ہرگز عامل نہیں بنائیں گے یا عامل نہیں بناتے جو عامل بننے کی خواہش کرے، لیکن اے ابوموسیٰ! یا آپ نے فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! اس کام کے لیے تم جاؤ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھیج دیا، پھر ان کے پیچھے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بھیجا، جب معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: اترو، اور ایک گاؤ تکیہ ان کے لیے لگا دیا، تو اچانک وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی ان کے پاس بندھا ہوا ہے، معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ کیسا آدمی ہے؟ ابوموسیٰ نے کہا: یہ ایک یہودی تھا جو اسلام لے آیا تھا، لیکن اب پھر وہ اپنے باطل دین کی طرف پھر گیا ہے، معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے مطابق جب تک یہ قتل نہ کر دیا جائے میں نہیں بیٹھ سکتا، ابوموسیٰ نے کہا: اچھا بیٹھئیے، معاذ نے پھر کہا: اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کی رو سے جب تک وہ قتل نہ کر دیا جائے میں نہیں بیٹھ سکتا، آپ نے تین بار ایسا کہا، چنانچہ انہوں نے اس کے قتل کا حکم دیا، وہ قتل کر دیا گیا، (پھر وہ بیٹھے) پھر ان دونوں نے آپس میں قیام اللیل (تہجد کی نماز) کا ذکر کیا تو ان دونوں میں سے ایک نے غالباً وہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ تھے کہا: رہا میں، تو میں سوتا بھی ہوں، اور قیام بھی کرتا ہوں، یا کہا قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، اور بحالت نیند بھی اسی ثواب کی امید رکھتا ہوں جو بحالت قیام رکھتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المرتدین 2 (6923)، صحیح مسلم/الامارة 3 (1733)، سنن النسائی/الطہارة 4 (4)، (تحفة الأشراف: 9083)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/409) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 4  
´کیا حاکم اپنی رعیت کے سامنے مسواک کر سکتا ہے؟`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو آدمی تھے، ان میں سے ایک میرے دائیں اور دوسرا میرے بائیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کر رہے تھے، تو ان دونوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کام (نوکری) کی درخواست کی ۲؎، میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے، ان دونوں نے اپنے ارادے سے مجھے آگاہ نہیں کیا تھا، اور نہ ہی مجھے اس کا احساس تھا کہ وہ کام (نوکری) کے طلب گار ہیں، گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسواک کو (جو اس وقت آپ کر رہے تھے) آپ کے ہونٹ کے نیچے دیکھ رہا ہوں اور ہونٹ اوپر اٹھا ہوا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم کام پر اس شخص سے مدد نہیں لیتے جو اس کا طلب گار ہو ۳؎، لیکن (اے ابوموسیٰ!) تم جاؤ (یعنی ان دونوں کے بجائے میں تمہیں کام دیتا ہوں)، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا ذمہ دار بنا کر بھیجا، پھر معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم کو ان کے پیچھے بھیجا۔ [سنن نسائي/كتاب الطهارة/حدیث: 4]
4۔ اردو حاشیہ:
➊ مسئلۃ الباب (امام کا اپنی رعایا یا کسی عظیم الشان شخصیت کا اپنے عقیدت مند افراد کے سامنے مسواک کرنا اس کی شان کے خلاف نہیں اور نہ یہ خلاف شرع ہے) کے علاوہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی عہدے کی طلب بذات خود جائز نہیں، بلکہ اسے حاکم کی رائے پر چھوڑ دینا چاہیے، البتہ اگر حاکم خود کسی منصب یا عہدے کے لیے درخواستیں طلب کرے تو اپنے آپ کو پیش کرنا جائز ہے، جیسے جنگ خندق کے موقع پر آپ نے پوچھا: قریش کی خبر کون لائے گا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ [صحیح البخاری، الجھاد والسیر، حدیث: 2846]
گویا آج کل نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا طریق کار درست ہے، البتہ حصول اقتدار کی خاطر اپنے آپ کو پیش کرنا درست نہیں۔ واللہ أعلم۔
➋ کسی عہدے کے طالب یا حریص کو عہدہ نہ دیا جائے کیونکہ اولاً تو حریص آدمی اپنے عہدے سے انصاف نہیں کر سکے گا بلکہ اسے شان و شوکت یا دولت کے حصول کا ذریعہ بنائے گا۔ ثانیاً: ایسے آدمی کواللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد اور توفیق نہیں ملے گی جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔ [صحیح البخاري، الأیمان والنذور، حدیث: 6622، و صحیح مسلم، الأیمان، حدیث: 1652]
لیکن اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی دوسرا آدمی اسے ذمے داری کو صحیح طرح نہیں نبھا سکے گا تو وہ اس ذمے داری کو کماحقہ نبھانے کی خاطر اس کا مطالبہ کر سکتا ہے، جیسے حضرت یوسف علیہ السلام سے نے کہا: تھا: «اِجَعَلْنِيْ عَلٰي خَزَآئِنِ الْاَرْضِ اِنِّيْ حَفِيْظٌ عَلِيْمٌ» [يوسف 55: 12]
مجھے اس زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجیے، بے شک میں پوری حفاظت کرنے والا، خوب جاننے والا ہوں۔ اسی طرح حضرت عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجیے۔ آپ نے فرمایا: تم ان کے امام ہو اور ان کے ضعیف ترین کا خیال رکھنا۔ [سنن أبي داود، الصلاۃ، حدیث: 531]
➌ مسواک دائیں بائیں کے علاوہ اوپر نیچے کے رخ پر بھی کی جائے تاکہ مسواک کے ریشوں سے دانتوں کے درمیان پھنسی ہوئی آلودگی بھی نکل سکے، حدیث میں لفظ «قَلَصَتْ» اس پر دلالت کرتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1031  
´مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان`
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ایسے شخص کے متعلق جو پہلے اسلام لایا پھر یہودی ہو گیا تھا مروی ہے کہ میں اس وقت تک نہیں بیٹھوں گا تاوقتیکہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ ہے۔ چنانچہ اس کے قتل کا حکم دیا گیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔ (بخاری ومسلم) ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ اسے قتل سے پہلے توبہ کرنے کے لئے کہا گیا۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1031»
تخریج:
«أخرجه البخاري، استتابة المرتدين، باب حكم المرتد والمرتدة واستتابتهم، حديث:6923، ومسلم، الإمارة، باب النهي عن طلب الإمارة والحرص عليها، حديث:1733، وأبوداود، الحدود، حديث:4355.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرتد کو سزائے ارتداد سے پہلے توبہ کا موقع دیا جائے گا اور اسے توبہ کے لیے باقاعدہ کہا جائے گا۔
جمہور علماء کے نزدیک ایسا کرنا واجب ہے مگر بعض دوسرے علماء اور ظاہریہ اسے واجب تسلیم نہیں کرتے۔
2.حدیث: مَنْ بَدَّلَ… الخ میں لفظ مَنْ عام ہے‘ یعنی مرتد مرد ہو یا عورت دونوں کو اسلام کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دینے کے بعد ان کے انکار پر مصر رہنے کی صورت میں قتل کر دیا جائے گا۔
3. حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بھی عورت کو اس کے ارتداد کی سزا میں قتل کیا گیا۔
اس وقت کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے، کسی نے اعتراض نہیں کیا۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مرتد کے قتل پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔
4. اس واقعہ سے درج ذیل مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں: ٭ امیر ریاست کو عاملوں (گورنروں) کا تقرر کرنے کا حق حاصل ہے۔
٭ ایک وقت میں دو عاملوں کا تقرر بھی جائز ہے۔
٭ گورنر کا فرض ہے کہ مرتد کو سزائے ارتداد دے اور شرعی حدود نافذ کرے۔
٭ اپنی تقرری کی جگہ سواری پر جانا ثابت ہے۔
٭ حاکم کی طرف سے مقرر کردہ گورنر اور وزیر کا احترام بھی کرنا چاہیے۔
٭ شرعی سزا کے نفاذ میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے جبکہ تحقیق و تفتیش کی کارروائی مکمل ہو چکی ہو۔
٭ مجرم کو جکڑنا جائز ہے۔
٭ سزا کا اجرا و نفاذ لوگوں کی موجودگی میں کرنا چاہیے تاکہ عبرت حاصل ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1031   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4354  
´مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔`
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میرے ساتھ قبیلہ اشعر کے دو شخص تھے، ایک میرے دائیں طرف تھا دوسرا بائیں طرف، تو دونوں نے آپ سے عامل کا عہدہ طلب کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، پھر فرمایا: ابوموسیٰ! یا فرمایا: عبداللہ بن قیس! تم کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، ان دونوں نے مجھے اس چیز سے آگاہ نہیں کیا تھا جو ان کے دل میں تھا، اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ سے عامل بنائے جانے کا مطالبہ کریں گے، گویا میں اس وقت آپ کی مس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4354]
فوائد ومسائل:
1) اس حدیث میں بظاہر یہی ہے کہ اس مرتد سے توبہ نہیں کرائی گئی۔
مگر درج ذیل روایات میں ہے کہ اس سے توبہ کرائی گئی تھی اور جمہور یہی کہتے ہیں۔

2) مہمان کا حق ہے کہ اس کی عزت افزائی کی جائے۔

3) منکرات پر انکار میں ٹال مٹول اور ڈھیل کا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیے۔

4) حدود شرعیہ جاری کرنے میں بھی بلاوجہ تاخیر کرنا مناسب نہیں۔

5) مباح اور جائز اعمال پر بھی نیت صالح کی بنیاد پر انسانوں کو اجروثواب ملتا ہے، مثلا نیند بندے کے لئے راحت کا فطری عمل ہے، مگر جب یہ نیت ہو کہ نیند کے بعد فلاں نیک کام کروں گا تو یہ نیند بھی اجر و ثواب کا عمل بن جاتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4354