سنن ابي داود
كِتَاب الدِّيَاتِ -- کتاب: دیتوں کا بیان
7. باب مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ أَوْ مَثَّلَ بِهِ أَيُقَادُ مِنْهُ
باب: جو شخص اپنے غلام کو قتل کر دے یا اس کے اعضاء کاٹ لے تو کیا اس سے قصاص لیا جائے گا؟
حدیث نمبر: 4515
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کریں گے، اور جو اس کے اعضاء کاٹے گا ہم اس کے اعضاء کاٹیں گے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الدیات 18 (1414)، سنن النسائی/القسامة 6 (4740)، 7 (4743)، 12 (4757)، سنن ابن ماجہ/الدیات 23 (2663)، (تحفة الأشراف: 4586)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/10، 11، 12، 18)، دی/ الدیات 7 (2403) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز حسن بصری نے عقیقہ کی حدیث کے علاوہ سمرہ سے دوسری احادیث نہیں سنی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 996  
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مالک نے اپنے غلام کو قتل کیا ہم اسے قتل کریں گے اور جس نے اس کا ناک، کان کاٹا ہم اس کا ناک، کان کاٹ دیں گے۔ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔ یہ سمرہ سے حسن بصری کی روایت ہے اور سمرہ سے حسن بصری کے سماع میں اختلاف ہے اور ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں ہے کہ جس مالک نے اپنے غلام کو خصی کیا ہم اسے خصی کر دیں گے۔ اس اضافہ کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 996»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الديات، باب من قتل عبده أو مثل به أيقاد منه؟ حديث:4515، والترمذي، الديات، حديث:1414، والنسائي، القسامة، حديث:4740، وابن ماجه، الديات، حديث:2663، وأحمد:5 /10، 11، 12، 18، 19، والحاكم:4 /367.* الحسن البصري عن سمرة كتاب والرواية عن كتاب صحيحةكما في أصول الحديث، بحث الوجادة والمناولة.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ مالک و آقا سے غلام کی جان اور اعضاء کا قصاص لیا جائے گا۔
اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے آزاد کو غلام کے بدلے میں بہرصورت قتل کیا جائے۔
وہ غلام اس کا اپنا ہو یا کسی اور کا۔
اور ایک قول یہ ہے کہ اس صورت میں قتل کیا جائے گا جبکہ غلام دوسرے کا ہو‘ اگر اپنا غلام ہو تو اس صورت میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ آزاد کو غلام کے عوض کسی صورت میں قتل نہیں کیا جائے گا۔
یہ آخری قول امام احمد‘ امام مالک‘ امام شافعی اور حسن بصری رحمہم اللہ وغیرہم کا ہے۔
ان کا استدلال اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے ہے: ﴿کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ﴾ (البقرۃ۲:۱۷۸) تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض ہے‘ آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام (قتل کیا جائے۔
)
ان کا کہناہے کہ اس حدیث میں حسن بصری اور سمرہ کے درمیان انقطاع ہے‘ نیز آپ کے ارشاد «قَتَلْنَاہُ» کا مفہوم یہ ہے کہ ہم اس سے بدلہ لیں گے اور اس کے اس برے فعل کی اسے سزا دیں گے۔
اس میں لفظ قتل بطور مشاکلت کے استعمال ہوا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے: ﴿وَجَزٰٓؤُا سَیِّـئَۃٍ سَیِّـئَـۃٌ مِّثْلُھَا﴾ (الشورٰی۴۲:۴۰) برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی کے ساتھ ہوتا ہے۔
اس جگہ سَیِّئَۃٌ کا دوبارہ لانا بطور مشاکلت کے ہے۔
اسی طرح کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی لفظ قتل بطور مشاکلت کے ہے۔
اس سے مقصود زجر و توبیخ اور ڈرانا دھمکانا ہے۔
رہا یہ معاملہ کہ آزاد مرد کا عضو غلام کے عضو کاٹنے کے بدلے میں کاٹا جائے گا یا نہیں‘ تو اکثر اہل علم کی رائے یہی ہے کہ آزاد کا عضو غلام کے عضو کے بدلے میں نہیں کاٹا جائے گا۔
ان کی اس رائے کی بنیاد یہ ہے کہ اس حدیث کو انھوں نے زجر و توبیخ پر محمول کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 996   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1414  
´اپنے غلام کو قتل کر دینے والے شخص کا بیان۔`
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم بھی اسے قتل کر دیں گے اور جو اپنے غلام کا کان، ناک کاٹے گا ہم بھی اس کا کان، ناک کاٹیں گے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1414]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں اورروایت عنعنہ سے ہے،
نیز حدیث عقیقہ کے سوا دیگر احادیث کے حسن کے سمرہ سے سماع میں سخت اختلاف ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1414